لاہور میں 7 بہنوں کے اکلوتے بھائی مسیحی نوجوان کا لرزہ خیز قتل، 9 ملزمان گرفتار

لاہور میں 7 بہنوں کے اکلوتے بھائی مسیحی نوجوان کا لرزہ خیز قتل، 9 ملزمان گرفتار
پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں مسیحی نوجوان کے قتل کے الزام میں پولیس نے 9 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کے مطابق مسیحی نوجوان کی ہلاکت کا یہ افسوسناک واقعہ سوموار کے روز لاہور کے علاقے والٹن کینٹ میں میں پیش آیا جہاں مقامی نوجوانوں کے حملے میں ایک مسیحی نوجوان پرویز مسیح ہلاک ہو گئے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مسیحی نوجوان کی ہلاکت کی لرزہ خیز واردات کی تحقیقات جا ری ہیں۔ سی سی ٹی وی فوٹیجز، عینی شاہدوں کے بیانات اور شواہد کے فرانزک تجزیے کی مدد سے اس افسوسناک سانحے کی تمام پہلوئوں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ قتل کی واردات کا مقدمہ درج کیا جا چکا ہے، متاثرہ فیملی کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور متاثرہ خاندان کو تحقیقات سے آگاہ رکھا جا رہا ہے۔

پولیس کے مطابق تحقیقات میں تیزی سے پیشرفت ہو رہی ہے۔ ہم اس سانحے میں ملوث مختلف لوگوں کے کردار کو متعین کر رہے ہیں۔ ابھی وجہ تنازعہ واضح نہیں ہے تاہم تفتیش کے بعد اصل صورتحال سامنے آ جائے گی۔



دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے بھی اس واقعے کا نوٹس لے لیا ہے اور اعلیٰ پولیس افسران اس واقعے کی تحقیقات کی نگرانی کر رہے ہیں۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقے میں پولیس کی خصوصی نفری تعینات کر دی گئی ہے اور گشت بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق حالات مکمل طور پر کنٹرول میں ہیں اور کسی قسم کی قانون شکنی سے سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا۔

ایف آئی آر کے مطابق پرویز مسیح شادی شدہ تھا اور سات بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ جائے واردات پر موجود ایک نوجوان افضل کے مطابق پرویز مسیح اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا۔

ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے پرویز مسیح کی آخری رسومات کے موقع پر ان کے رشتہ داروں کی طرف سے بہت جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ تدفین سے پہلے اس سانحے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔ شہر کے مختلف علاقوں سے لوگ مسیحی فیملی کے ساتھ اظہار افسوس کے لئے آ رہے ہیں۔

اس کیس کی تحقیقات سے وابستہ پولیس اہلکاروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق بظاہر یہ مقامی آبادی کے مسلم اور مسیحی نوجوانوں کا جھگڑا معلوم ہوتا ہے اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسیحی رہنما سیمسن سلامت کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ واقعہ کسی مذہبی رنجش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ مقامی نوجوانوں کی لڑائی کا شاخسانہ ہے۔

(بشکریہ ڈی ڈبلیو)