سپریم کورٹ کے پاس صرف ایک ہی راستہ، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے

سپریم کورٹ کے پاس صرف ایک ہی راستہ، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے۔


نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا کہ سپریم کورٹ کو کہنا چاہیے کہ اس طرح سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی کوئی نظیر نہیں۔ چونکہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا عمل ہوا ہی نہیں، اس لئے ووٹنگ آرٹیکل 254 کے تحت ہر حالت میں ہوگی، خواہ اس میں تاخیر ہو چکی ہے لیکن اس عمل کو ضرور کیا جائے۔


عرفان قادر کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 5 میں صرف یہ درج ہے کہ ہر پاکستانی شہری کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ ریاست کا وفادار رہے۔ لیکن یہ ایشو تو قومی اسمبلی کے ایجنڈے پر تھا ہی نہیں۔ ایجنڈا تو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا تھا۔ عدم اعتماد کی تحریک جمع ہونے کے بعد اس پر ووٹنگ کے عمل کو کسی صورت روکا ہی نہیں جا سکتا۔ لیکن آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی۔


ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں اس واضح کیس پر لمبی لمبی سماعتیں کی جا رہی ہیں۔ ایک جانب تو وہ کہہ رہے ہیں کہ اس پر فل کورٹ بنانے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں جبکہ دوسری جانب صرف چھوٹے سے بنیادی سوال پر اتنی تاخیر سے کام لیا جا رہا ہے۔


ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کیس میں تو 10 منٹ سے زیادہ وقت ہی نہیں لگنا چاہیے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر اس میں ایسی کون سے افلاطونیت ہے۔ میں تو اس سارے قانونی عمل سے حیران اور پریشان ہوں۔ ایسی صورتحال میں عدلیہ بھی تنازعات کا شکار ہو جاتی ہے۔


پروگرام کے دوران ملک کی سیاسی صورتحال پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ جس دن سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف ازخود نوٹس کی سماعت شروع کی تو حکومتی ٹیم کا خیال تھا کہ وہ اسے جونیجو کیس کی طرح لٹکا لیں گے کہ عدالت عظمیٰ کو کہنا پڑے گا کہ اب چونکہ الیکشن کا وقت بہت قریب آ گیا ہے، اس لئے اب اسمبلی بحال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔


مزمل سہروردی نے کہا کہ حکومت کی سٹریٹجی تو یہی ہے کہ رولنگ غلط قرار پا جائے لیکن الیکشن کا فیصلہ قائم رہ جائے۔ لیکن دوسری جانب اپوزیشن کی حکمت عملی ہے کہ ناصرف ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غلط قرار پائی جانی چاہیے بلکہ اسمبلی میں عدم اعتماد پر ووٹنگ بھی ہونی چاہیے۔


انہوں نے کہا کہ آج سپریم کورٹ میں دوبارہ اس کیس کی سماعت ہوئی تو معزز ججز صاحبان کی جانب سے کہا گیا کہ ہم صرف پوائنٹ آف لا پر بات کریں گے۔ اس سے انہوں نے حکومت کی حکمت عملی کو کارنر پر لگا دیا ہے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ دو دن میں اس کیس کا فیصلہ آ جانا چاہیے۔


ان کا کہنا تھا کہ یہ کیس انتہائی سادہ ہے، اس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ اگر یہ رولنگ قائم رہی تو پاکستان کے آئین اور قانون میں وزیراعظم کو آئینی طور پر اقتدار سے نکالنے کے تمام راستے بند ہو جائیں گے۔ ایک بار جو وزیراعظم منتخب ہو جائے گا تو وہ پانچ سال کیلئے اپنا اقتدار پورا کرے گا۔


بینش سلیم کا کہنا تھا کہ یہ ایک فکسڈ میچ تھا۔ ہر چیز کو پہلے سے ہی طے کرکے رکھا گیا تھا۔ میں عدالتوں کا بہت احترام کرتی ہوں لیکن گذشتہ روز ملک میں غیر معمولی صورتحال تھی۔ سپریم کورٹ ہم سب کی مائی باپ ہے۔ اسے اسی غیر معمولی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایسا ہی ایکشن لینا چاہیے تھا۔ وہ چاہے تو وہ کیا نہیں کر سکتی۔ میں کوئی قانونی ماہر نہیں لیکن میرے نزدیک یہ بہت واضح کیس تھا، اس پر کل ہی فیصلہ آ جانا چاہیے تھا۔