'جب سینیئر صحافی کے سوال پر نواز شریف کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا'

'جب سینیئر صحافی کے سوال پر نواز شریف کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا'
سینیئر صحافی ضیاء الدین ایسے صحافی تھے جنہوں نے کبھی کسی ایک پارٹی کی طرف داری نہیں کی بلکہ وہ اپنے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے سبھی سے سخت سوال کرتے تھے اور اسی وجہ سے تمام حکومتیں ان سے نالاں رہتی تھیں۔ 1999 میں کارگل جنگ سے قبل انہوں نے پرویز مشرف کی بریفنگ کے دوران ان سے سخت سوال پوچھے تو جنرل مشرف ان کے سوالوں پر غصے میں آ گئے۔ اسی طرح جب بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں تو وہ بھی ضیاء الدین کے سخت سوال پر ایک مرتبہ غصے میں آ گئی تھیں۔ ضیاء الدین نے ایک مرتبہ نواز شریف سے بھی کوئی سوال کیا تھا جس کے جواب میں اگرچہ نواز شریف نے ناراضگی کا اظہار تو نہیں کیا تھا تاہم ان کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تھا۔ یہ کہنا ہے اینکر پرسن حامد میر کا۔

حامد میر  نے کہا کہ وہ سینیئر صحافی ضیاء الدین کی سیاسی بصیرت سے بہت متاثر تھے۔ جنوری 1999 کا واقعہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ تھا۔ تب نواز شریف وزیر اعظم تھے اور جنرل پرویز مشرف آرمی چیف تھے۔ آرمی چیف کی جانب سے افطار پر مدعو تھے لیکن ہمیں افطار  سے 2 گھنٹے قبل بلایا گیا۔ وہاں میرے علاوہ ایک اردو اخبار کے ایڈیٹر تھے۔ انگریزی اخبار کے ایڈیٹر ضیاء الدین تھے۔ طارق واسطی تھے۔ ایک اور بزرگ صحافی سعود ساحر بھی وہاں موجود تھے۔ آرمی چیف نے جنرل عزیز کو بلایا ہوا تھا۔ انہوں نے دیوار پر ایک نقشہ لگایا ہوا تھا اور انہوں نے ہمیں بریفنگ دینی شروع کر دی۔ فلاں روڈ بند کریں تو فلاں پہاڑی پر قبضہ کر لیں گے،  فلاں کریں تو فلاں تو ہم تین دنوں میں کشمیر آزاد کروا سکتے ہیں۔

حامد میر اس تمام بریفنگ سے بہت پر جوش ہوئے اور انہوں نے سوال کیا کہ واقعی تین دن میں کشمیر آزاد کروا لیں گے تو  جنرل صاحب نے جواب دیا کہ بالکل، بس نواز شریف صاحب ہمیں اجازت دے دیں۔ ہم نے بس تین چار چوٹیوں پر قبضہ کرنا ہے اور  پانچ چھ سڑکیں بلاک کرنی ہیں تو کشمیر آزاد ہو جائے گا۔ میں نے جواب دیا کہ یہ تو بہت زبردست بات ہے۔ ضیاء الدین میری ساتھ والی نشست پر ہی بیٹھے تھے۔ انہوں نے میرے پاؤں پر اپنا پاؤں مارا کہ "چپ کر"۔ میں خاموش ہو گیا۔ وہ بریفنگ درحقیقت کارگل پلان کے بارے میں تھی۔ وہ یہ نہیں بتا رہے تھے کہ ہم یہ کر چکے ہیں بلکہ یہ بتا رہے تھے کہ اگر ہم یہ کر دیں تو ایسا ہو جائے گا۔

اب چونکہ میں پسندیدگی کا اظہار کر چکا تھا تو مشرف صاحب بار بار میری طرف دیکھ کر پوچھ رہے تھے کہ پھر کیا خیال ہے آپ کا۔ میں نے پھر جواب دیا کہ بالکل ٹھیک ہے۔ ضیاء الدین نے پھر سے میرے پاؤں پر 'ٹُھڈا' مارا کہ چپ کر۔ مجھے تھوڑا برا بھی لگا مگر وہ میرے بزرگ بھی تھے۔ دوسرا وہ وہاں بیٹھے ہوئے مجھے واضح لفظوں میں ٹوک بھی نہیں سکتے تھے۔ تو انہوں نے سوچا کہ میں حامد میر کو کیا سمجھاؤں، جو بریفنگ دے رہا ہے اسی کو سمجھاتا ہوں۔ انہوں نے جنرل صاحب سے کہا کہ آپ پاکستانی قوم کو تو فتح کر سکتے ہیں مگر کشمیر کو فتح نہیں کر سکتے تو میں ان کا چہرہ دیکھنے لگ گیا۔ جنرل صاحب ان کی بات پر غصے میں آگئے اور بہت پرجوش انداز میں ضیاء الدین کو قائل کرنے کی کوشش کرنے لگے جبکہ ضیاء الدین جوابی دلائل دینے لگے۔

جب جنرل صاحب ضیاء الدین کی دلیل پر کوئی مضبوط جواب نہیں دے سکے تو میں نے ضیاء الدین صاحب کی سائیڈ لے لی۔  جب مجھ سے دوبارہ پوچھا گیا تو میں نے بولا کہ سوال تو وہ منطقی کر رہے ہیں۔ وہ بات ختم ہونے کے قریباً ڈیڑھ دو ہفتے بعد خبریں آنے لگیں کہ کہیں پہ کچھ ہو رہا ہے پھر مئی سے جولائی تک ملک بحران کا شکار رہا۔ تو وہ وہی صورت حال تھی جو ضیاء الدین صاحب نے اپنی دلیل کے طور پر پیش کی تھی۔ اس کے بعد پرویز مشرف ہمیشہ ضیاء الدین سے ناراض ہی رہے۔

صرف پرویز مشرف ہی نہیں بلکہ تقریباً تمام حکومتیں ہی ضیاء الدین سے ناراض رہتی تھیں کیونکہ وہ سبھی سے سوال کرتے تھے اور کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے جانبدار رویہ نہیں رکھتے تھے۔ وہ کسی بھی پارٹی کے نہیں بلکہ اپنے اصول کے پابند تھے۔

2006 سے 2009 تک ضیاء الدین لندن میں ایک انگریزی اخبار کے نمائندے تھے اور جب پرویز مشرف وہاں گئے تو ایک پریس بریفنگ میں انہوں نے سینیئر صحافی کے خلاف قابل مذمت ریمارکس دیے۔ جس کے بعد صحافیوں کی جانب سے پرویز مشرف کے خلاف مظاہرے بھی کئے گئے۔ آٹھ دس ماہ بعد اکتوبر میں فوجی بغاوت ہو گئی۔ ضیاء الدین صاحب نے تب بھی جہاں ضرورت سمجھی، وہاں کھل کر پرویز مشرف پر تنقید کی۔