اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کے خط پر سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں بننے والا کمیشن فلاپ ہو جائے گا۔ اس کمیشن میں سے کچھ نہیں نکلے گا اور کسی کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔ تاثر ہے کہ حکومت کی جانب سے یہ کمیشن معاملہ دبانے اور اس پر مٹی ڈالنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ البتہ خط لکھنے والے جج صاحبان کے بارے میں باتیں نکلنا شروع ہو جائیں گی اور ان کے خلاف پوری کمپین چلے گی۔ کمیشن کا مطالبہ کرنے والے خود اس مطالبے پر پچھتائیں گے۔ یہ کہنا ہے سینیئر تجزیہ کار نجم سیٹھی کا۔
سماء ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کمیشن بنا دیا گیا ہے لیکن جو لوگ کمیشن کا مطالبہ کر رہے تھے وہ اس مطالبے پر پچھتائیں گے۔ جج حضرات کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل سے درخواست کی گئی تھی کہ آپ اس معاملے پر اپنی رائے دیں کہ کیا ہونا چاہیے۔ اس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کے ساتھی اور وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے ساتھی سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور یہ فیصلہ ہوا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بنے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف چیف جسٹس پاکستان سے مشاورت کے بعد کسی ریٹائرڈ جج کو اس کمیشن کا سربراہ مقرر کریں گے۔ جونہی یہ فیصلہ ہوا تو اس پر تبصرے شروع ہو گئے کہ یہ چیف جسٹس کو خود کرنا چاہیے تھا اور ججز حضرات پر مشتمل یہ کمیشن خود بنانا چاہیے تھا۔ سوموٹو نوٹس لینا چاہیے تھا۔ انہیں حکومت کے پاس نہیں جانا چاہیے تھا۔ چیف جسٹس نے فل کورٹ اجلاس بھی طلب کیا تھا جس میں متضاد آرا سامنے آئیں اور اتفاق نہ ہو سکا۔ تاثر یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے سینیئر ججز اس طرح کے معاملے میں خود نہیں بیٹھنا چاہتے تھے اور چاہتے تھے کہ یہ کام کوئی اور کرے۔
تجزیہ کار نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل نے نوٹس لیا لیکن انہیں کونسل کے سامنے پیش ہونے کے لیے بلایا ہی نہیں گیا کہ وہ آ کر کوئی گواہی دیں۔ ان کے خلاف حکم نامہ جاری کر دیا کہ انہوں نے کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی اور ان کی چھٹی کروا دی۔ اس وقت کے ججز بہت پرو-اسٹیبلشمنٹ ججز تھے اور توقع کی جا رہی تھی کہ وہ بلائیں گے بھی نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو باتیں باہر نکلتیں اور اخباروں کی زینت بنتیں۔ جب جسٹس صدیقی اپیل میں گئے تو جج صاحبان نے کہا کہ انہیں سنا ہی نہیں گیا تو گذشتہ کارروائی غلط تھی لیکن ان کو پھر نہیں بلایا۔ ججز اس طرف جا ہی نہیں رہے کیونکہ اگر وہ ججز کو بلا لیں اور وہ بہت سے اشخاص کا نام لے بھی لیں تو اگر ثبوت ملتا ہے یا نہیں ملتا لیکن نام تو باہر آ جائیں گے اور خبروں کا حصہ بنیں گے تو ایجنسیوں کی بدنامی تو ہو جائے گی۔ اس لیے ابھی بھی جج صاحبان نے دامن بچایا ہے کیونکہ اگر کوئی ثبوت نہیں ملا اور انہوں نے ساتھی ججز کے خلاف فیصلہ کیا تو عوام کہیں گے کہ عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کے پیروں میں بیٹھ گئی۔ اور اگر ان کے خلاف کرتے ہیں تو بھی ادارے کے اندر بغاوت ہو سکتی ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
نجم سیٹھی نے کہا کہ حکومت نے سوچا کہ بہتر یہی ہے کہ ان معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ یہ نہ ہو کہ ایسی باتیں شروع ہو جائیں کہ معاملہ کہیں اور چلا جائے۔ اسی لیے سوچا کہ کمیشن اور ٹی او آرز بناتے ہیں اور جلد سے جلد انکوائری مکمل کرنے کی ہدایت دیتے ہیں کیونکہ یہ تحقیقات جتنی لمبی چلیں گی، اتنی ہی باتیں باہر نکلیں گی۔ اس سے یہی تاثر مل رہا ہے کہ اس معاملے کو نمٹانا ہے اور مٹی ڈالنی ہے۔ زیادہ باتیں باہر آنے کا موقع نہیں دینا۔ یہ کہہ دیا جائے گا کہ باتیں تو بہت تھیں لیکن عدم شواہد کی بنیاد پر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔
نجم سیٹھی نے مزید کہا کہ جج صاحبان کو بھی اس معاملے کو اس طرح سے اپروچ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ خط لکھنے کے بجائے چیف جسٹس سے ملاقات کر کے انہیں اس بارے میں آگاہ کر سکتے تھے۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی بھی بدنامی ہو گی۔ لوگ باتیں کریں گے کہ آپ 6 ماہ یا ایک سال سے کیوں چپ تھے؟ اب کیوں بول رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکر لیتے ہیں تو وہ چپ تو نہیں بیٹھتی۔ جیسے ہی اس کمیشن سے باتیں نکلنی شروع ہوئیں تو ججز کے خلاف بھی باتیں نکلنا شروع ہو جائیں گی اور الزامات کی بوچھاڑ شروع ہو جائے گی۔ اسٹیبلشمنٹ بہت طاقتور ہے۔ ان کے پاس تو گذشتہ، موجودہ اور آنے والے ججز کی فائلیں بھی موجود ہیں جو الزامات سے بھری ہوئی ہیں اور جب کسی پر کوئی الزام لگتا ہے تو پاکستانیوں کی اکثریت کہتی ہے کہ یہ الزام تو درست ہے۔ اس انکوائری میں اسٹیبلشمنٹ پر کوئی داغ نہیں نکلے گا اور کچھ نہیں ہو گا تاہم جج حضرات کو اور گندا کیا جائے گا۔ کمیشن کے سربراہ جج کا ٹریک ریکارڈ ہے کہ انہوں نے آج تک کبھی کوئی متنازع فیصلہ ہی نہیں کیا اور وہ ہمیشہ معاملے پر مرہم پٹی کرتے ہیں۔
نجم سیٹھی نے کہا کہ میرے خیال میں اس انکوائری کمیشن سے عدلیہ کا نقصان ہو جائے گا اور شاید اسی لیے جیلانی صاحب کو منتخب کیا گیا ہے تا کہ انہیں کہا جائے کہ نقصان نہ عدلیہ کا ہو اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کا۔ لہٰذا کمیشن فلاپ ہو جائے گا۔ اس کمیشن میں سے کچھ نہیں نکلے گا اور کسی کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ صرف ایک ہی بات نکلے گی کہ مداخلت کی شکایتیں بہت آ رہی ہیں لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ ریاستی ادارے ہیں تو اس قسم کا تاثر نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمیشن سب کو بلا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بلائیں گے یا نہیں۔ کیونکہ یہ لوگ آئیں گے، کچھ نام بھی لیں گے لیکن ثابت کرنا مشکل ہو گا۔ میرے خیال میں بلائیں گے اور ایک، ایک سماعت تو ہو گی۔ باتیں ریکارڈ ہو جائیں گی لیکن ججز برے بن جائیں گے کیونکہ سابق جج صاحبان نے بھی اس معاملے کا علم ہونے کے باوجود اس سے متعلق کچھ نہیں کیا تھا۔