ڈان نیوز سے وابستہ اینکر پرسن اور صحافی نادیہ نقی نے کہا ہے کہ حالیہ آڈیو لیکس سیاست دانوں کو کنٹرول کرنے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔ سائفر والی آڈیو لیکس والا سکینڈل اگر موجودہ حکومت سے متعلق ہوتا اور عمران خان اور ان کی پارٹی کے ہاتھ میں آیا ہوتا تو وہ اس پہ اب تک بہت زوردار بیانیہ بنا چکے ہوتے۔ موجودہ حکومت کو اتنا بڑا سکینڈل بھی اپنے حق میں استعمال کرنا نہیں آ رہا۔ جونہی عمران خان کی آڈیو لیکس ہوتی ہیں اور ان پر پریشر بڑھتا ہے آپ ایسے موقعے پر عمران خان کے وارنٹ جاری کروا کر صاحب کو اور بڑا بنا دیتے ہیں۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو "خبر سے آگے" میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور مصنف عامر غوری نے کہا کہ موجودہ حکومت نہیں چاہتی کہ عمران خان پارلیمنٹ میں واپس آئیں بلکہ وہ چاہتی ہے کہ خان صاحب سڑکوں پر ہی پھریں۔ حکومت کی اسٹریٹیجی ہے کہ آہستہ آہستہ استحکام حاصل کرتے جائیں اور عمران خان کو پارلیمنٹ میں واپس نہ آنے دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کا سیاسی سفر اب بہت مشکل مرحلے میں آن پہنچا ہے۔
عامر غوری کا مزید کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے جنرل باجوہ کا امریکہ کا یہ دورہ ان کا آخری دورہ ہو اور وہ امریکیوں کو بتانے گئے ہیں کہ میرے بعد بھی پینٹاگون اور جی ایچ کیو کے تعلقات بنے رہنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف بھی نہیں چاہیں گے کہ باجوہ صاحب رکے رہیں، وہ بھی یہی چاہیں گے کہ باجوہ صاحب ریٹائر ہو جائیں۔
معروف دانش ور ضیغم خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے وارنٹ جاری ہونا اہم بات نہیں ہے، اہم بات ان وارنٹس پر عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا ری ایکشن ہے۔ ان کے ری ایکشن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈر رہے ہیں کہ کہیں انہیں اس بار گرفتار نہ کر لیا جائے اور اس خوف کی وجہ ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت عمران خان کو ہراساں تو کر رہی ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ عمران خان والا کھیل عمران خان کے ساتھ کھیلیں گے۔ میرا خیال ہے کہ موجودہ حکومت عمران خان والی سیاست عمران خان کے ساتھ نہیں کرنا چاہ رہی۔ حکومت بھی چاہتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ بھی یہ چاہتی ہے کہ ملک میں بہت زیادہ سیاسی تناؤ نہ پیدا کیا جائے اور معیشت پہ دھیان دیا جائے۔ ورنہ اس سے بہت کم سخت باتیں کرنے پر اس سے پہلے لوگوں کو سائیڈ پہ کیا جا چکا ہے۔ جاوید ہاشمی کو یاد کر لیں۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی اور مرتضیٰ سولنگی تھے۔