پلاٹ کی سیاست نے مزاحمتی صحافت کو دفن کر دیا

پلاٹ کی سیاست نے مزاحمتی صحافت کو دفن کر دیا
نوے کے عشرے میں جب صحافت میں قدم رکھا تو اس زمانے میں یونین کا بڑا فعال کردار ہوا کرتا تھا۔ پشاور میں خیبر یونین آف جرنلسٹس یا KHUJ کارکن صحافیوں کا واحد بڑا اور آزاد فورم اگرچہ آج بھی یہ تنظیم موجود ہے لیکن کارکردگی پہلے جیسی موثر نہیں رہی۔ وجہ کیا ہے؟ اس پر آگے چل کر بات کریں گے۔

ان دنوں شوکت یوسفزئی KHUJ کے صدر تھے اور شاید وہ دو یا تین مرتبہ KHUJ کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان کے دور میں یونین نے صحافیوں کے مسائل ہر فورم پر اٹھائے اور ایک موثر کردار ادا کیا لیکن شاید شوکت یوسفزئی کے اہداف کچھ اور تھے کیونکہ بعد میں انہوں نے اسی تنظیم کو سیڑھی بناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے تعلقات بنائے، بعد میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور صحافت کو خیرباد کہا۔ آج کل وہ خیبر پختونخوا حکومت میں وزیر لیبر کے عہدے پر فائز ہیں۔

اس زمانے میں جب کہنی صحافیوں کے خلاف مقدمات درج ہوتے، وہ گرفتار ہو جاتے یا اخباری مالکان سے کوئی پھڈا ہوتا تو خیبر یونین آف جرنلسٹس فوراً کھڑی ہو جاتی اور ہر فورم پر بھرپور احتجاج کرتی۔ اس وقت یونین کی آواز کو حکومت بھی توجہ سے سنتی تھی۔

مرکز میں بھی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس یا PFUJ ایک بڑا موثر پلیٹ فارم سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت تک مرکزی تنظیم اندرونی گروہ بندی اور گند سے مکمل طورپر پاک تھی جس کی وجہ سے ملک بھر میں اس کی آواز کو بڑا توانا قرار دیا جاتا تھا۔

بلاشبہ PFUJ کی سرگرمیاں صرف صحافیوں کے لئے آواز بلند کرنے تک محدود نہیں تھی بلکہ اس تنظیم نے مارشل لاؤں اور فوجی آمروں کے دور میں جمہوریت کی بحالی میں بھی بڑا اہم کردار ادا کیا جو اب ہماری تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔

یہاں تک کہ فوجی آمر ضیاالحق کے دور میں صحافیوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، انہیں کوڑے مارے گئے، اذیتیں دی گئیں اور نوکریوں سے نکالا گیا۔ یہ صحافت کا ایک ایسا سنہرا دور تھا جس میں اخبار نویسوں نے نہ صرف قلم کی حرمت کی صدا بلند کی بلکہ سیاسی قیادت کے ساتھ کندھا سے کندھا ملا کر فوجی آمروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

اس دور کے یونینزم میں ذیلی تنظیمیں تربیت گاہ کی حیثیت رکھتی تھیں جہاں صحافت کے ساتھ ساتھ جونیئر صحافیوں کی ہر لحاظ سے ٹریننگ بھی ہوتی تھی۔ اس زمانے کے صحافیوں کو اور کچھ معلوم تھا یا نہیں لیکن وہ کم از کم آزادی صحافت اور اس کی جدوجہد سے خوب واقفیت رکھتے تھے۔ چونکہ مرکزی تنظیم مضبوط تھی اسی وجہ سے صوبوں میں قائم ان کی ذیلی شاخیں بھی بڑی فعال تھیں۔

پشاور میں چند سال پہلے تک KHUJ کی مثال ایک مردہ گھوڑے جیسی تھی۔ تاہم، اس دوران اگر اس کے بے جان جسم میں کچھ تھوڑا بہت ارتعاش پیدا ہوا تو وہ شاید فدا خٹک کے صدر بن جانے کے بعد ہوا لیکن پھر بھی پہلے والا متحرک کردار اس کے دور میں بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔

مرکز میں PFUJ کئی گروپوں میں بٹ جانے کی وجہ سے گذشتہ کئی سالوں سے پورے ملک کی صحافتی تنظیمیں ایک بڑے بحران سے گزر رہی ہیں۔ جس طرح مرکزی تنظیم کے کئی بخرے ہو چکے ہیں اسی طرح صوبوں میں بھی کئی گروپس بن چکے ہیں۔ لیکن اس ضمن میں پشاور کے صحافیوں کا اس حد تک تو کردار بڑا قابل ستائش ہے کہ جنہوں نے مرکز میں کئی دھڑوں کے باوجود KHUJ کو تقسیم ہونے سے بچایا ہوا ہے۔ تاہم اب لگتا ہے کہ اس کے وجود کو بھی سنگین قسم کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔

دوسری طرف اس زمانے میں یونین کے مقابلے میں پریس کلبز کا صحافیوں کے مسائل کے حل میں کوئی زیادہ کردار نہیں تھا۔ ویسے بھی بنیادی طورپر پریس کلب کا مینڈیٹ ممبران کو تفریح فراہم کرنا یا زیادہ سے زیادہ عامل صحافیوں کے استعداد کار پر توجہ دینا ہے۔

لیکن اب گذشتہ دو عشروں سے معاملہ یکسر الٹ ہو گیا ہے۔ پلاٹ کی سیاست اور پریس کلبز میں پیسے کی ریل پیل اور فروانی نے یونین کے کردار کو جیسے بہت حد تک محدود کر دیا ہے۔

کم از کم پشاور کی سطح پر دیکھا جائے تو ساری توجہ پریس کلب کی جانب مرکوز ہے۔ یہاں تک کہ پریس کلب کے الیکشنز میں ہر سال امیدوار کامیابی کے حصول کے لئے ہر طرح کے سیاسی اور حکومتی اثر رسوخ کے ساتھ ساتھ مالی وسائل کا استعمال بھی کرتے رہے ہیں۔

سینئیر صحافی مظہر عباس نے درست کہا ہے کہ پلاٹ کی سیاست نے صحافیوں کا قبلہ تبدیل کر دیا ہے یعنی بظاہر ان کا مزاحمتی بیانیہ زمین بوس ہوتا نظر آ رہا ہے۔

بظاہر اس تبدیلی کا سب بڑا نقصان یہ سامنے آ رہا ہے کہ اس سے صحافیوں کی آزادی صحافت کا بیانیہ اور فیلڈ میں نئے آنے والے صحافیوں کی تربیت کمپرومائز ہو گئی ہے۔

ٹھیک ہے کہ جائز طریقے سے پلاٹ کا حصول ہماری ضرورت ہے اور پھر ایک ایسے وقت میں جب پشاور پریس کلب کے پانچ سو اراکین میں سے آدھے کے قریب ممبران کو بے روزگاری کا سامنا ہو اور ذرائع ابلاغ کا بھی یہ حال ہو کہ آئے دن عامل صحافیوں کو ان کے اداروں سے جبری طور پر رخصت کیا جاتا ہو۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اب ہماری کل کائنات پلاٹ کا حصول اور مراعات لینا ہے یا صحافتی اصولوں اور اقدار کو بھی بچانا ہے؟

ہم پر اکثر اوقات لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ جو صحافی حکومت سے پلاٹ اور مراعات لیتا ہو وہ کیا حکومت یا وزرا کی کرپشن بے نقاب کر سکے گا؟ کیا ایسے صحافی کبھی حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں یا ان کے تعریفوں کے پل باندھیں گے؟

جب حکومت کی طرف سے پلاٹ دینے کا اعلان کیا جاتا ہے تو پھر اس منصوبے کو میچور ہونے میں کم سے کم دس سال کا عرصہ تو لگتا ہی ہے اور اس دوران یونین اور پریس کلب کے انتخابات میں ہر سال صرف پلاٹ پلاٹ کھیلا جاتا ہے بلکہ ساری سیاست اسی کے گرد گھوم رہی ہوتی ہے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ صحافت میں کمرشلزم نے صحافیوں کو اس کے اصل مقصد سے ہٹا دیا ہے اور اس طرح ان کی صحافتی تنظیمیں بھی کمرشل اداروں میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ پہلے ہر بڑے شہر میں ایک یونین ہوتی تھی جو تمام صحافیوں کے لئے نمائندہ تنظیم کا کام کرتی تھی لیکن اب تو ہر میٹرپولیٹن شہر میں یونین کے علاوہ درجن بھر سے زیادہ متوازی تنظیمیں موجود ہوتی ہیں جن کا اپنا الگ ایجنڈا ہوتا ہے۔ ان متوازی تنظیموں کی موجودگی سے یونین کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہو گئی ہے۔

حالیہ دنوں میں پریس کلبز میں بھی نئے نئے گروپس سامنے آ رہے ہیں جن کے منشور میں صحافت کے کسی بیانیے کا کوئی تذکرہ تو نہیں ہوتا البتہ پلاٹ کے لئے جدوجہد ان کا سرفہرست ایجنڈا ہوتا ہے۔ کچھ نوجوان اس مقصد میں کامیاب بھی ہو گئے ہیں۔ اب ذرا اندازہ کریں کل کو یہی نوجوان پریس کلب اور یونین کی باگ ڈور سنبھالیں گے، اگر ان کی سیاست کی جدوجہد کی ابتدا ہی مراعات کے حصول سے ہوئی ہو تو کیا یہ صحافت کا مقدمہ لڑ سکیں گے؟

مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔