کیا پسماندہ صوبوں کے طلبہ کی سکالرشپ مقامی طلبہ کا استحصال کرتی ہیں؟

کیا پسماندہ صوبوں کے طلبہ کی سکالرشپ مقامی طلبہ کا استحصال کرتی ہیں؟
سابقہ فاٹا کے طلبہ گزشتہ 27 روز سے گورنر ہاؤس لاہور کے باہر بیٹھے دھرنا دے رہے تھے ، وہ اس حکومت کو ان کے ساتھ کیا وعدہ یاد دلا رہے جس کے تحت اس حکومت نے فاٹا کے طلبہ کی بند کی گئی سکالرشپ بحال کرنے کا اعلان کیا مگر بعد میں مکر گئی۔ 25 روز تک پرامن دھرنا دینے والے طلبہ کو بالآخر بھوک ہڑتال پر بیٹھنا پڑا اور یہ بھوک ہڑتال گزشتہ 36 گھنٹوں سے جاری ہے، بھوک ہڑتال کے باعث بہت سے طلبہ کی حالت بگڑ رہی ہے جبکہ گزشتہ رات انہیں ڈرپ لگا کر طبی امداد دی گئی ہے۔

عوام کے پیسے سے پلنے والا شہنشاہ گورنر اپنے محل میں داخل ہوتے وقت روز ان طلبہ کو دیکھتا ہے مگر مجال ہے کہ آ کر انکی بات سن لے۔  ہڑتال پر بیٹھے طلبہ کا کہنا ہے کہ بھوک ہڑتال کی وجہ سے اگر کسی طالب علم کو کچھ ہوا تو اسکا ذمہ دار بے حس وزیراعظم ، ڈمی وزیر اعلیٰ اور سرکاری عیاش گورنر پنجاب ہوں گے۔

دوسری جانب فاٹا کے طلبہ کی مخصوص سیٹیوں کا معاملہ کیا اٹھا، ہمارے پنجابی دوستوں کی عزتِ نفس مجروح ہونے لگی۔ بہت سے ناقص العقل دوست ان کی مخصوص نشستوں کو میرٹ کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ ان نا بلد دوستوں کو بتلانا مقصود ہے کہ مخصوص نشستوں سے میرٹ پہ آنے والے طلبہ کا استحصال نہیں ہوتا بلکہ انکی تعداد جوں کی توں رہتی ہے۔ اگر میرٹ کی سیٹیں بڑھانا چاہتے ہیں تو ہائر ایجوکیشن کا بجٹ بڑھوائیں۔

رہی بات سکالرشپس کی تو سکالرشپ بھی میرٹ کی بنیاد پر ہی دی جاتی ہیں اور ان علاقوں کے قابل لوگ ہی سکالرشپ پہ داخلہ لیتے ہیں ۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک پاکستانیوں کو سکالرشپ دیتے ہیں اگر ان ممالک کے لوگ یہی منطق سنانے لگ جائیں تو کسی پاکستانی کو بیرون ملک سکالرشپ پہ داخلہ نہ ملے۔

اس نظام کی تعلیم دشمن پالیسیاں پرکھنے کی کوشش کریں یا آپ اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی تعداد کا موازنہ ہی کرلیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ میں سے صرف 1 فیصد یونیورسٹی تک پہنچ سکتے ہیں کیونکہ ریاست چاہتی ہی نہیں کہ اسکولوں کے طلبہ یونیورسٹیوں تک پہنچیں۔ گورنمنٹ نے اسکولوں کی تعداد کے مقابلے میں یونیورسٹیاں انتہائی کم بنائی ہیں اور ایک سازش کے تحت غریب کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے دور رکھا جارہا ہے۔

فاٹا، بلوچستان اور دیگر پسماندہ علاقوں کو ماضی اور حال میں جس طرح جنگ میں دھکیلا گیا اس ملک کے لئے انکی قربانیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جس کا بدلہ ہم کبھی نہیں چکا سکتے۔ ہماری ریاست نے پہلے امریکہ کے ساتھ مل کر ان علاقوں کو طالبان کا گڑھ بنایا، بعد ازاں آپریشن ضربِ عضب اور ر دالفساد کے نام پر ان علاقوں کے لوگوں کو دربدر کیا گیا۔ ان جنگ زدہ علاقوں میں اسکول،کالج اور یونیورسٹیاں نہیں بنائی گئیں اسی کے ازالے کی کوشش میں ماضی کی حکومتوں نے ان علاقوں کے طلبہ کے لئے سکالرشپ کا اعلان کیا۔ ان پسماندہ علاقوں کی محرومیوں کا ہمیں اندازہ ہی نہیں۔ ان علاقوں کے اراکینِ پارلیمان بھی ریاست کے ساتھ مل کر ان کا استحصال کرتے رہے جبکہ اُن کے اپنے بچے بیرون ملک پڑھتے رہے۔

پنجاب بڑا بھائی بننے کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر اس صوبے کی عوام کو ایک سازش کے تحت اپنے پشتون، بلوچ، سندھی، گلگتی اور کشمیری بھائیوں سے جدا رکھا گیا اور ان تمام اقوام کے بیچ ایک دوسرے کیلئے نفرت پالی گئی۔

اہلِ پنجاب کے پاس موقع ہے کہ ان کی محرومیوں کا ازالہ کریں۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ اس ملک کی تمام اکائیاں مل جل کر رہیں تو ہم سب کو ایک دوسرے کا دکھ درد سمجھنا ہوگا اور آپس میں محبت پیدا کرنا ہوگی۔ نفرت نے ماضی میں بھی ہمیں جدا رکھا آگے بھی پھوٹ ہی ڈالے گی۔ گورا تو چلا گیا مگر اس کے بعد کے حکمرانوں کی صرف چمڑی بدلی ہے۔ انکا وطیرہ اور طرزِ حکمرانی اب بھی وہی ہے کہ 'پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو'.

حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔