Get Alerts

قائد ہم شرمندہ ہیں یہ نوجوان ذہنی طور پر پسماندہ ہیں

قائد ہم شرمندہ ہیں یہ نوجوان ذہنی طور پر پسماندہ ہیں
ذیادتی ذیادتی ذیادتی، سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا یا پھر اخبارات کہیں بھی کسی ایک بھی دن آپ ایسی کسی خبر سے محروم نہیں ہوتے جہاں ذیادتی سے متعلق کوئی خبر نا ہو۔ جوان لڑکی سے ذیادتی، بچوں کے سامنے ان کی ماں سے ذیادتی، بھائی کی بہن کے ساتھ ذیادتی، سسر کی بہو کے ساتھ ذیادتی، درس گاہ میں استاد کی شاگرد کے ساتھ ذیادتی، ہاسٹل میں معصوم بچے بچیوں کے ساتھ ذیادتی، موٹروے پرمدد کیلئے پکارنے والی کے ساتھ ذیادتی، گلیوں میں کھیلنے والی نئی کلیوں کے ساتھ ذیادتی، گھر پر کام کرنے والیوں کے ساتھ ذیادتی، شادی سے انکار پر ذیادتی، 2 دن کی بچی سے ذیادتی اور جب سانسیں چلنے والوں سے بھی حوس پوری نا ہوتو قبر میں دفن مردوں سے بھی ذیادتی مطلب کبھی بھی کہیں بھی کسی بھی حال میں ہوں چاہئے مشرقی لباس میں ہوں یا مغربی لباس میں، برقعے میں چھپی ہو یا بنا دوپٹے کے لمس کی حوس صرف یہ دیکھتی ہے کہ وہ ایک صنف نازک ہے نوچ لو بس اسے۔

اور ایسا بھی ہرگز نہیں کہ دنیا کا ہر مرد ایسا ہے یہ صرف ان لوگوں کی بات کی جارہی ہے جو ذہنی طور بیمار ہیں جن کے ضمیر مردہ ہیں جو زندگی میں بہت سی محرومیوں کا شکار ہیں جن کیلئے عزت اور احترام ان کی اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہیں ۔ ہم ایسے وحشی درندوں کو انسان بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ جانوروں سے بھی بدتر اور عقل و شعور سے عاری ایک ایسی مخلوق ہیں جن کا ظاہرتو بظاہر انسانوں جیسا ہے لیکن باطن ایسی درندگی سے بھرا پڑا ہے کہ زمین بھی ان پر تنگ کر دی جائے تو بہت چھوٹی سزا ہوگی ان کیلئے، یہ لوگ واجب القتل ہیں۔

زینب کیس سے لیکر نور مقدم کیس تک اب تک کسی بھی ملزم کو وہ سزا نہیں دی گئی جس سے ایسے واقعات میں کوئی کمی ہوتی ہوئی نظر آئے، زینب کیس میں ہی اگر سرے عام پھانسی دے دی جاتی تو شاید شاید ایسے واقعات میں کوئی کمی واقع ہوتی لیکن یہاں تو روز بروز ایسے واقعات میں شدت سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نامرد بنانے جیسی سخت سزاوں کے بل بھی نا جانے کن وجوہات کی بنا پر التواء کا شکار ہیں، وہ کون سی قوتیں ہیں جو ایسی سزاؤں کو آئین کا حصہ بننے سے روک رہی ہیں۔ کیا اب اس ملک میں بچیوں کی پیدائش پر ہی پابندی لگا دیں؟ پیدا ہوتے ہی مار دی جائیں؟ اور جو آ گئی ہیں اس دنیا میں انہیں اپنے ہاتھوں سے موت کی آغوش میں سولا دیں کیونکہ ذلت و رسوائی کی زندگی سے عزت کی موت پھر بہتر ہے۔

کیونکہ یہ واقعات تو روکنے سے رہے جب تک یہ درندے اس دنیا میں گھوم پھر رہے ہیں آپ چین کی سانس بھی نہیں لے سکتے۔ ہم بڑی آسانی سے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ اس کی پرورش اور تربیت ہی ٹھیک نہیں تھی ارے بھئی کون سے والدین اپنے بچوں کو انسان کی بجائے جانور بناتے ہیں؟ اور ہم سب کچھ گھر سے ہی سیکھ کر نہیں آتے آپ کا اردگرد کا ماحول آپ کی سوسائٹی آپ کے معاشرے کا بھی آپ کے کردار پر بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ والدین کی تربیت پر سوال کرنا چھوڑیں اپنے حصے کی ذمہ داری کو بھی یاد رکھیں۔

ایسے واقعات میں آخر روز بروز اضافہ کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو سب سے پہلے ڈاکٹر ہمارے مرض کی تشخیص کرتا ہے پھر اس کے مطابق اس کا علاج شروع کیا جاتا ہے اور پھر جب صحیح وقت پر صحیح تشخیص نہیں ہوتی تو ہم موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پھر دوا سے ذیادہ دعا پر انحصار کرتے ہیں کہ بس اللہ کوئی معجزہ ہی کردے۔ ایسا ہی کچھ اس حوس کی نامراد بیماری کے ساتھ بھی ہو رہا ہے، ہم کیوں نہیں یہ جان پا رہے یا جاننے کی کوشش کرنا چاہتے کہ اس مرض میں روز بروز اضافہ کیوں ہو رہا ہے ؟ ہم کوئی فرشتہ نہیں غلطیوں کوتاہیوں کے پتلے ہیں روز کوئی نئی غلطی کر بیٹھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس سے سیکھتے کچھ بھی نہیں۔

جیسے پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ٹھیک اسی طرح ہر شخص کی خصوصیات، خامیاں، سوچ اور نظریہ بھی ایک جیسا نہیں ہوتا۔ سب کے حالات و واقعات بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ بچپن سے جوانی تک وہ کن حالات میں پرورش پاتا ہے یہ سب بھی اس کے کردار میں بہت اہم رول ادا کرتا ہے۔ ہم نے بہت سے فلموں اور ڈراموں میں بھی اکثر دیکھا ہے کہ آپ کی زندگی میں پیش آنے والا کوئی ایسا واقعہ جو ساری زندگی کیلئے آپ کو اثرانداز کرجاتا ہے تو آپ کس طرح کی شخصیت بن کر ابھرتے ہیں ۔ ویسے تو عشق محبت، فیشن اور سسرالیوں کے رویے کو تو ہم بڑی جلدی اپنا لیتے ہیں ایسی تشہیروں سے لیکن جہاں بات کردار، اخلاق اور سبق کی آئے اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔

خیر پھر وہی بات کہوں گی سب کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا، ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں پر اخلاقیات کی بہت کمی ہے۔ ہم سب میں حسد، نفرت، تکبر، بغض، کینہ، حوس، جھوٹ اور فریب جیسی کئی برائیاں پائی جاتی ہیں۔ تشدد اور ذیادتی کے واقعات بھی انہیں برائیوں کے زیراثر پل بڑھ رہی ہیں۔ کہیں بدلے کی آگ میں ہوتا ہے تو کہیں حسد مار دیتی ہے، کہیں معاشرے کی تلخیوں سے تنگ نظری سے ہم شریعی رشتوں سے ذیادہ چھپ کر اور ناجائز تعلقات کو ترجیح دے دیتے ہیں۔ کہیں دوسرے سے اچھا دکھنا اور شہرت پانا آپ کو اس دلدل میں کھینچ لاتا ہے۔ جذبات سے بالاتر ہو کر سوچیں تو ہمارے ہاں پارن ویڈیوز دیکھنے کا رحجان بھی ذیادہ ہے۔ وہ ہر کام تو یہاں ہوتا ہے جو جنسی تعلقات استوار کرنے میں آپ کو مجبور کرتا ہے۔ لیکن سب میں خود اعتمادی نہیں ہوتی اس لیے وہ انسان سے جانور بن کر آسان راستہ اپناتے ہیں، نا ان کی اخلاقی تربیت ہوتی ہے نا انہیں کوئی سخت سے سخت سزا دی جاتی ہے جو سب کے لیے باعث عبرت ہو تبھی ایسے واقعات ہوتے چلے جاتے ہیں۔

لیکن کہیں نا کہیں عورت کی تذلیل کی وجہ عورت خود بھی بنتی ہے۔ میں سب کو نہیں کہہ رہی صرف انہیں کہہ رہی جو اس معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن رہی ہیں۔ میں بھی گھر سے باہر نکلتی ہوں، کام کی نوعیت کے اعتبار سے ذیادہ تر وقت بھی گھر سے باہر گزرتا ہے، دوست احباب سے ملنا ملانا بھی ہوتا ہے اور ہر طرح کے لوگوں سے آپ کا واسطہ پڑتا ہے۔ عورت دیکھنے والے کی نظرکو بہت جلد بھانپ لیتی ہے کہ وہ اسے کس نظر سے دیکھ رہا ہے پھر وہ کس طرح ان سب سے بچ کر چلتی ہے۔ تربیت کیا صرف بیٹوں کی ضروری ہے بیٹیوں کی بھی کیوں نہیں؟ ہم نے گھر سے نکلنا ہے، اس معاشرے میں رہنا ہے، ہر طرح کے لوگوں سے ملنا ہے اور یہ سب کیسے کرنا اس کی تربیت دینا کس کا فرض ہے؟ اچھے سکولوں اور کالجوں میں پڑھ لینے سے آپ کی تربیت کے فرائض پورے نہیں ہوجاتے، لحد سے قبر تک کا سفر ہوتا ہے اس تربیت کے ساتھ بھی جو ہم شاید ایک عمر تک پہنچ کر کرنا اور سیکھنا پھر اپنی توہین سمجھ بیٹھتے ہیں۔

سائیکوسوشل ٹاکسیسیٹی یعنی کہ زہریلے نفسیاتی معاشرے کا یہ مرض قابل علاج ہے بالکل ہے، یہاں ایک سے بڑھ کر ایک ماہر نفسیات موجود ہے لیکن بدقسمتی سے ان کے پاس وہی جاتے یا بھیجے جاتے ہیں جو ذہنی طور بالکل ناسمجھ یا آسان الفاظ میں پاگل ہوتے ہیں۔ ہم خود کو نارمل سمجھتے ہیں لیکن ہم ہیں نہیں جس ذہنی کیفیت انتشار، افسردگی، بے چینی اور مایوسی کا شکار ہیں اس سب کے علاج کیلئے بھی ہمیں ان سے رجوع کرنا چاہیئے ۔ اپنے اندر چھپی ان نفی سوچ کو نکال کر باہر پھینک دیں اور ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کو خوبصورت بنانے پر بھی توجہ دیں۔

معاشرے کی تلخیوں کو ختم کرنے کیلئے اس کا صحیح معنوں میں تشخص کرنا بہت ضروری ہے، پھر اس کے علاج کی ضرورت ہے اور اگر وہ مرض ناسور بن جائے تو اسے جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کریں اور یہ سب ایک منظم طریقے سے ممکن ہے آخری کام پہلے اور پہلا آخر میں نہیں ہوسکتا اور اس سب میں انفرادی طور پر اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

 

مصنفہ سینیئر صحافی ہیں اور ملک کے متعدد ٹی وی چینلز پر کام کر چکی ہیں۔ انٹرنیٹ پر ان کے مختلف ویب سائٹس پر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔