صوبہ پنجاب کے ضلع جہلم کے نواحی علاقے میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے مقدمہ میں پولیس نے تفتیش شروع کر دی۔ پولیس تحقیقات میں جدید ٹیکنالوجی کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
پولیس کے مطابق محمود آباد سے ابتدائی طور پر تمام سی سی ٹی وی فوٹیجز کو قبضے میں لے لیا گیا ہے اور نذر آتش کیے گئے قرآن پاک کے نسخے کو بھی اعلیٰ افسروں سے مشاورت کے بعد فرانزک جانچ کیلئے بھجوایا جائے گا۔ پولیس کے مطابق ابھی مقدمہ کی تفتیش شروع کی ہے اور ابتدائی مراحل میں ہے، امید ہے جلد ہی کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔
مقدمہ کے مدعی محمد علی جو خود ایک سرکاری ملازم ہیں، ان کے مطابق قرآن اور احادیث کے نسخوں کو آگ لگانے کا یہ واقعہ 29 مارچ کی شام کو پیش آیا لیکن مقدمہ 31 مارچ کی صبح 8 بجے کے قریب درج کروایا گیا۔
مقدمہ میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 اے کو شامل کیا گیا ہے جس کے تحت مذہبی جذبات کو جان بوجھ کر ٹھیس پہنچانے کا جرم ثابت ہونے پر زیادہ سے زیادہ 10 سال قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں سنائی جا سکتی ہیں جبکہ 295 بی کی دفعہ کے مطابق جان بوجھ کر قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے، اس کو جلانے کے جرائم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا تعزیرات پاکستان میں مقرر کی گئی ہے۔
'نیا دور' سے بات کرتے ہوئے مقدمہ کے تفتیشی افسر راجہ مرتضیٰ فردوس نے بتایا کہ واقعہ کی چھان بین جدید آلات کے ذریعے اور کیمروں کی مدد سے کی جا رہی ہے۔ تفتیشی افسر کے مطابق وقوعہ سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر لی گئی ہے۔ ان ویڈیوز کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ملزموں کی شناخت کی جائے گی کیونکہ مدعی مقدمہ نے بھی کسی ملزم کو نامزد نہیں کیا اور نا ہی کسی نے ابھی تک ملزمان کی شناخت کی ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
مقدمہ کے مدعی محمد علی کے بقول ان کی والدہ بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتی ہیں، اسی وجہ سے محلے کا بچہ قرآن کے نذر آتش کیے گئے نسخے پارک سے اٹھا کر ان کے گھر لے آیا تھا۔ مدعی کے بقول انہوں نے خود بھی اچھی طرح چھان بین کرنے کے بعد پولیس سے رجوع کیا۔
مدعی نے 'نیا دور' کو بتایا کہ واقعہ کی اطلاع تھانہ کالا گجراں میں دی جس پر پولیس نے موقع پر پہنچ کر پارک کا جائزہ لیا اور جس بچے کو جلے ہوئے نسحے ملے تھے، اس کے والدین سے بھی پولیس نے پوچھ گچھ کی۔
اُدھر تفتیشی افسر کے مطابق قرآن کے نسخے کو اعلیٰ افسروں سے مشاورت کے بعد فرانزک معائنے کیلئے بجھوایا جائے گا تا کہ یہ تعین ہو سکے کہ قرآن مجید کا نسخہ کس حد تک جلا ہے۔
پولیس کے بقول ابتدائی تفتیش کے مطابق قرآن مجید کے حروف محفوظ ہیں لیکن نسخے کے کنارے جل چکے ہیں۔
مدعی مقدمہ نے کہا کہ 30 مارچ کو واقعہ کی اطلاع ملنے کے بعد پولیس کو یہ بھی درخواست کی تھی کہ وقوعہ کے قریب گھروں میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگے ہوئے ہیں ان کی مدد سے ملزموں کی شناخت کر لی جائے لیکن پولیس اتوار 31 مارچ کی شام 5 بجے تک ویڈیوز حاصل نہیں کر پائی تھی۔
تحقیقاتی افسر راجہ مرتضیٰ فردوس کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے کیا مقاصد کیا ہو سکتے ہیں، اس پر وہ ابھی کوئی رائے نہیں دے سکتے اور مقدمہ میں کوئی ملزم نامزد نہیں، اسی وجہ سے امن کمیٹی کا اس میں کوئی کردار نہیں تاہم مقدمہ درج ہونے کے بعد علاقے میں حالات پُرامن ہیں۔
یاد رہے 2015 میں جہلم میں توہین قرآن کے واقعہ کے بعد کالا گجراں میں احمدی کمیونٹی کے ایک عبادت خانے کو نذر آتش کیے جانے کے بعد صورت حال کشیدہ ہو گئی تھی جس کی وجہ سے فوج طلب کی گئی تھی۔