اپوزیشن کے دن گنے جا چکے ہیں۔ یہ ہے عاصمہ شیرازی کے تازہ ترین کالم کا عنوان۔ ان کا ماننا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں کچھ کرنے جوگی نہیں۔ ایک دن انہیں امید بندھتی ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی آپس میں نہیں بن رہی لیکن ساتھ ہی کوئی اہم ترین قانون سازی کی باری آ جاتی ہے جس میں حکومت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کو ضرورت پڑ جاتی ہے حکومت کا ساتھ دے کر یہ قانون سازی کامیاب کروانے کی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ گذشتہ ماہ دیکھنے میں آیا جب حکومت نے پہلے تو قومی اسمبلی سے سٹیٹ بینک ترمیم ایکٹ منظور کروایا اور پھر سینیٹ سے اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود یہ ایکٹ پاس کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ قومی اسمبلی کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وہاں تو حکومت کی اکثریت ہی ہوتی ہے، تبھی تو وہ حکومت ہے۔ لیکن سینیٹ میں 3 ووٹوں کی عددی برتری کے باوجود اپوزیشن کا شکست کھا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اگر حکومت کے ساتھ ایک صفحے پر نہیں تو اپوزیشن کے ساتھ بھی نہیں ہے۔ یہاں لیکن ایک بات جس کی طرف عاصمہ شیرازی نے اشارہ کیا ہے، وہ اہم ہے۔
وہ لکھتی ہیں:
ایک وقت وہ بھی تھا کہ کوئی اپوزیشن جماعت لانگ مارچ کا اعلان کرتی تھی تو اقتدار میں موجود جماعت کو واقعی لالے پڑ جاتے تھے۔
وجہ صاف ظاہر تھی، سیاسی جماعتیں ازلی مقتدر حلقوں کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہوتیں، کبھی اشارے اور کبھی فقط کنایے کو ہی عافیت سمجھتیں مگر عوام کے مزاج کی بھی کسی حد تک ترجمان ہوتیں۔ سو مقتدر حلقے تبدیلی کی راہ ہموار کرتے اور یوں ایک ’منظم تبدیلی‘ میسر آ جاتی۔
آخری تبدیلی یا ’جرنیلی سڑک کا انقلاب‘ جنرل کیانی کے دور میں آیا۔ اس وقت کی تحریک انصاف یعنی نون لیگ نے پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر چیف جسٹس کی بحالی کے لیے دباؤ بڑھانے کے واسطے پیپلز پارٹی کے ہی وکیل رہنما چوہدری اعتزاز احسن کے ہمراہ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا فیصلہ کیا۔
گوجرانوالہ کے مقام پر جناب جنرل کیانی کی درخواست پر لانگ مارچ کا نتیجہ برآمد ہوا اور احتجاج کامیاب ہونے کی نوید سنائی گئی، یوں جی ٹی روڈ کا انقلاب واپس لاہور مڑ گیا۔
عمران خان کا لانگ مارچ وہ واحد لانگ مارچ تھا جو مقتدر حلقوں کی مبینہ آشیرباد کے باوجود کامیاب نہ ہو سکا۔ شاید سابقہ سیاسی جماعتوں نے وقت کی چکی میں پس کر کچھ سیکھ لیا تھا یا پھر خان صاحب کے ہاتھ ایمپائر تک نہ پہنچ سکے اور نہ ہی 126 دن کا دھرنا، جلاؤ، گھیراؤ کام آ سکے اور یوں ڈی چوک پر ٹینٹ لپیٹنا پڑے۔
عاصمہ شیرازی نے ماضی کے ادوار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ کس طرح اپوزیشن کے ایسے دھرنوں کو اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصلہ ہوتی تھی۔ مگر عوام کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہ سلسلہ 2008 میں شروع نہیں ہوا۔ پاکستان کی تاریخ میں ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اپوزیشن ہی کی پشت پناہی کی گئی ہے چہ جائیکہ حکومت ہی اسٹیبشلمنٹ کی آ جائے۔ 1977 کی نظامِ مصطفیٰ کی تحریک کو اٹھا لیجیے۔ وقت نے ثابت کیا کہ 'نو ستاروں' کی اس تحریک کے پیچھے ملکی و غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ موجود تھی۔ بھٹو کی پھانسی میں صرف فوج نہیں، عدلیہ بھی پیش پیش تھی۔
بینظیر بھٹو کی حکومت آئی تو غلام اسحاق خان نے روزِ اول سے ان کی راہ میں روڑے اٹکانا یوں شروع کیے کہ پنجاب میں نواز شریف کی حکومت بننے تک بینظیر کو واضح اکثریت کے باوجود مرکز میں حکومت بنانے کی دعوت نہ دی اور برملا اظہار کیا کہ اگر بینظیر کو حکومت بنانے کی دعوت دے دی تو پنجاب کے آزاد امیدوار پیپلز پارٹی کا رخ کر لیں گے۔ اب صدر کا کیا کام آزاد امیدواروں کی فکر میں گھلتا رہے؟ مگر انہوں نے یہ کیا۔
1990 سے 1993 تک اپوزیشن سے اسٹیبلشمنٹ کی کوئی محبت نہ تھی لیکن اس حکومت کو ہٹانے میں بھی اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں تھا۔ غلام اسحاق خان نے ہی یہ حکومت برطرف کی۔ اور لڑائی ہوئی تو آرمی چیف درمیان میں کودے۔ بینظیر کی حکومت آئی تو اسٹیبلشمنٹ نے پھر پنجاب میں ان کی حکومت نہ بننے دی۔ منظور وٹو اور حامد ناصر چٹھہ کی سرکردگی میں مسلم لیگ کا ایک آزاد گروپ پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت میں شامل ہوا اور وزارتِ اعلیٰ اس کے ہاتھ رہی۔ نواز شریف سے اب اسٹیبلشمنٹ کی کٹی ہو چکی تھی تو نواز شریف اکثریت کے باوجود حکومت نہ بنا سکے۔ اور بینظیر حکومت کی برطرفی کے بعد نواز شریف کی کوئی اپوزیشن سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی کے کل 16 ارکان اسمبلی میں تھے، کچھ عرصے میں بینظیر بھٹو نے جلا وطنی اختیار کی تو پارلیمانی اپوزیشن تو سمجھیے ختم ہی ہوئی، لے دے کر ایک جماعتِ اسلامی تھی جو اسٹیبلشمنٹ کے دست و بازو کے طور پر سڑکوں کی حد تک کارروائی ڈالتی رہی۔ لیکن بنا اپوزیشن کے بھی نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ نے نکال باہر کیا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی حکومت ہے کہ جب اسٹیبلشمنٹ نہ تو خود اپوزیشن میں اور نہ اپوزیشن کے ساتھ ہے۔ ہر بار یہ حکومت کی قانون سازی میں اثر انداز بھی ہوتی ہے اور عام حالات میں بھی حکومتی اتحادی محض اس لئے حکومتی اتحادی ہیں کہ ان کو مارچنگ آرڈرز نہیں ملے۔ وگرنہ خوش تو عمران خان سے وہ قطعاً نہیں۔
عاصمہ شیرازی لانگ مارچ پر بالکل ٹھیک تبصرہ کرتی ہیں کہ اس بار لانگ مارچ محض ضد ہے یا واقعی انقلاب براستہ موٹروے آ رہا ہے؟ اس لانگ مارچ کا فائدہ پیپلز پارٹی اٹھائے گی یا مولانا کے دھرنے کی طرح فائدہ کوئی اور لے جائے گا؟
اہم تعیناتیوں سے قبل یہ مارچ کسی کی سہولت کاری کرے گا یا پھر کچھ اور؟ بلاول صاحب کہہ رہے ہیں کہ لانگ مارچ کے ساتھ ہی خان صاحب گھر چلے جائیں گے مگر کیسے۔ یہ معلوم نہیں؟
ٹھیک ایک ماہ بعد یعنی مارچ کی 23 کو رمضان سے ایک ہفتہ قبل مولانا اور نون لیگ لانگ مارچ کا اعلان کر رہے ہیں اسی دعوے کے ساتھ کہ خان صاحب گھر کی راہ لیں گے۔ ورنہ؟ اس ورنہ کے آگے کیا ہے کسی کو معلوم نہیں۔
تاہم، تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے ان کا یہ دعویٰ کہ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نواز شریف اس لئے بنے ہوئے ہیں کہ وہ شہباز شریف پر اعتبار کے لئے تیار نہیں اور دراصل مریم نواز کے لئے راہ ہموار کرنے کے لئے کوشاں ہیں، شاید اپوزیشن پر ایک ایسی تہمت ہے کہ جسے دھونے کا کوئی ذریعہ تو نہیں۔ لیکن یہاں مزمل سہروردی کا نواز شریف سے ملاقات کے بعد لکھا گیا کالم زیادہ قرینِ قیاس دکھائی دیتا ہے جہاں وہ لکھتے ہیں کہ نواز شریف کے مطابق ان کے سامنے اقتدار اور ووٹ بینک میں سے کسی ایک چیز کو چننے کی آپشن ہے اور "میں عوام کو جوابدہ ہوں۔ اقتدار اور ووٹ بینک میں جب بھی فیصلہ کرنے کا وقت آیا ہے تو میں نے ووٹ بینک کے حق میں فیصلہ کیا ہے۔ ایسا اقتدار نہیں چاہیے جو ووٹ بینک کی قیمت پر ملے۔ ووٹ بینک اقتدار دے سکتا ہے لیکن کتنا ہی مضبوط اقتدار ہو ووٹ بینک نہیں دے سکتا۔ اس لیے عوام کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے۔جو بھی کریں عوام کے اعتماد کے مطابق ہی کریں گے۔"