’حکومت ادارے کے پیچھے کھڑی ہے‘

’حکومت ادارے کے پیچھے کھڑی ہے‘
عمرانی دورحکومت کے 20 مہینے مکمل ہونے کو آئے ہیں، پر روز اول سے حکومتی ٹیم میں تبدیلیوں کے نام پر کھیلے جانے والا میوزیکل چیئر کا کھیل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اس کھیل کہ ضوابط تبدیلی کے بعد کچھ یوں متعین کیے گئے ہیں کہ میوزک بند ہونے کے باوجود کرسی پر قبضہ جمانے والے شخص کو بغیر وجہ جانے باہر کا راستہ ناپنا پڑتا ہے۔ یہ بھونڈا اصول کھیل میں حصہ لینے والے کابینہ کے تمام قسم کے ارکان سب پر یکساں نافذ العمل ہیں۔ یہ تو شکر ہے کہ منتظم کو اپنی کمزور کرسی کی ہلتی ہوئی چولوں سے مکمل آگاہی حاصل ہے، جس کی وجہ سے امپائر کو اس کھیل کا حصہ بننے پر اصرار نہیں کیا جا سکا۔

خیر، اگر ہم جناب شبلی فراز اور عاصم باجوہ کو سونپے جانے والے وزارت اطلاعات و نشریات کے قلمدان پر بات کریں، تو دیکھنے میں تو یہی نظر آتا ہے کہ شبلی فراز کے ہاتھ میں تو صرف ’قلم‘ تھمایا گیا ہے، اصل میں وزارت تو باجوہ صاحب کو ’دان‘ ہوئی ہے۔ اس عہدے پر دونوں ’نوآور‘ شخصیات ایک دوسرے کے بالکل منافی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان سے رکھی جانے والی توقعات بھی انواع و اقسام کی ہیں۔ مخالفین دھیمے لب و لہجے کے مالک شبلی صاحب سے جتنی چھوٹ کی توقع رکھتے ہیں، رٹائرڈ جنرل صاحب سے اتنی ہی کاری ضرب لگنے کا خدشہ محسوس کرتے ہیں۔ حامیوں کی نظر میں بھی شبلی فراز کی شائستگی بلاشبہ خان صاحب کے ایحنڈے کی تشہیر میں ایک رکاوٹ کا کام کرے گی۔ ’مشن تبدیلی‘ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے باجوہ صاحب کا گھات لگا کر دشمنوں کو واصل کرنے والا نسخہ ہی کارآمد ثابت ہو سکے گا۔

اگر طاقتور معاون خصوصی کی وزارت اطلاعات و نشریات کو شرف بخشنے کے اسباب پر بات کریں تو شاید یہ قیاس آرائی ہر گز درست نہیں کہ موصوف کی آمد کا مقصد میڈیا کو لگام ڈالنا ہے۔ میڈیا کا بے مہار گھوڑا تو اپنی رفتار کی ہی تاب نہ لاتا ہوا ٹانگیں تڑوا چکا ہے، طبیب کی عدم دلچسپی اور کچھ دیگر وجوہات کے باعث اب یہ ’چوپایہ‘ بند آنکھوں کے ساتھ آخری سفر کا منتظر ہے۔ جو چند ایک ’خچر‘ اس گھوڑے پر چڑھ کر، ابھی بھی دوڑ میں شمولیت کے متمنی ہیں، ان کو زمین پر گونجتی صداؤں پر بھی کان دھرنے چاہئیں، جو ’جینے دو‘ سے ’جینا ہے‘ میں بدل چکی ہیں۔



دوسرا مشہور تُکا جس کے مطابق یہ تعنیاتی سیاسی مخالفین کو ناکوں چنے چبوانے کی غرض سے کی گئی ہے تو اس میں بھی ہرگز دم خم نہیں، کیونکہ اس ناتواں اپوزیشن پر باجوہ صاحب جیسے قیمتی اثاثے کو ضائع کرنا تو سراسر باجوہ صاحب کی توہین ہے۔ اپوزیشن کی بانگوں کے لئے تو ایک ’اقبال‘ کا نیب ہی کافی ہے۔ جو چند ایک ’ناسمجھ‘ اس زعم میں ہیں کہ وہ صاحب مابدولت کو ان کے نئے لباس پر پڑی شکنوں کی وجہ سے آڑے ہاتھ لے سکیں گے تو ان کے علم میں اضافہ کرتا چلوں کہ ان کا یہ نیا لباس اب بھی ان کے پرانے ادارے سے ہی پریس ہو کر آتا ہے۔

باجوہ صاحب کی نئی ذمہ داری کی گتھی کو مسئلہ کشمیر سے سلجھانے والوں کو بھی سمجھنا جاہیے کہ اگر حکومت کی ایسی نیت ہوتی تو زیادہ بہتر نتائج کے لئے ان کی تعنیاتی اقوام متحدہ میں مستقل مندوب کے طور پر کی جا سکتی تھی۔

جن چند ایک لوگوں کی نظر میں سویلین عہدے کے لئے رٹائرڈ فوجی جنرل کے انتخاب کی بنیادی وجہ یہ تاثر دینا ہے کہ حکومت اور ادارے ایک ساتھ کھڑے ہیں تو اصل میں یہی وہ بد خواہ ہیں جو جمہوریت کی ٹرین کو پٹڑی سے اترتے دیکھ کر مزے لینا چاہتے ہیں۔ ان سے گذارش ہے کہ حادثے سے بچنے کے لئے ریل کو پٹری پر چلتا رکھیں جس کے لئے انہی اپنے خیالات کی تصحیح کچھ اس جملے سے کرنی ہو گی کہ ’حکومت ادارے کے پیچھے کھڑی ہے‘۔

لکھاری ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں۔