جنگ اخبار نے ن لیگ کے اراکین کی پارٹی چھوڑنے کی خبر پہلے صفحے پر سپیشل بارڈر لگا کر شائع کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ افراد پہلے ہی ن لیگ سے نکالے جا چکے ہیں۔ خبر کے مطابق ن لیگ بلوچستان کے صدر نے لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقادر نے پارٹی قائد نواز شریف کے بیانیئے سے اختلاف کی بنیاد پر پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا ہے تاہم مسلم لیگ کے سینئر رہنما پرویز رشید کا کہنا تھا کہ عبدالقادر بلوچ کی پارٹی چھوڑنے کی وجہ نظریاتی نہیں بلکہ قبائلی ہے کیونکہ ان کے ایک دوست ثناءاللہ زہری کو پی ڈی ایم کوئٹہ جلسے میں سیٹ اور تقریر کا موقع نہیں ملا۔ ثناءاللہ زہری ن لیگ کی طرف سے وزیر اعلی بلوچستان بھی رہے مگر انہوں نے پارٹی ڈسلپن کی خلاف ورزی کی اور وہ گزشتہ تین سالوں سے بیرون ملک مقیم تھے لہذا انہیں سٹیج پر جگہ نہ دی گئی جس پر عبدالقادر بلوچ ناراض ہو گئے۔ احسن اقبال نے کہا کہ اگر وہ استعفیٰ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔
خبر میں بتائے گئے دوسرے لیگی رہنما سراد منصب علی ڈوگر جن کا تعلق پاکپتن سے ہے پہلے سے پارٹی سے نکالے جا چکے ہیں۔ جب انہیں الیکشن 2018 کیلئے پارٹی ٹکٹ نہ دیا گیا تو انہیں نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا تاہم وہ الیکشن بھی ہار گئے۔ ان کے پاس کسی بھی قسم کا ضلعی یا صوبائی تنظیمی عہدہ نہیں رہا۔
خبر میں جن باقی دو اراکین صوبائی اسمبلیوں کا نام دیا گیا ہے وہ انہی پانچ میں سے ہیں جنہوں نے عثمان بزدار سے ملاقات کی تھی اور لیگی اراکین نے ان کے سر پر لوٹے رکھے گئےاور ایم پی اے کی سیٹوں سے استعفیٰ دینے کا کہا تھا۔ ان میں رکن صوبائی اسمبلی غیاث الدین شامل ہیں۔ علاوہ ازیں دوسرے رکن صوبائی اسملبی نشاط خان بھی پارٹی سے پچھلے کئی مہینوں سے ناراض تھے اور انکی پارٹی چھوڑنے کی خبریں سرگرم عمل تھیں اور وہ وزیر اعلیٰ پپنجاب عثمان بزدار سے بھی ملاقات کر چکے تھے۔
یہ تمام رہنما پارٹی سے گزشتہ کئی مہینوں سے ناراض تھے تاہم انکا پارٹی چھوڑنے کی وجہ سابق سپکیر قومی اسمبلی ایاز صادق کے بیان سے زیادہ ذاتی نوعیت تصور کیا جارہا ہے۔