جمہوری بیانیہ بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ: مریم اور بلاول کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری

جمہوری بیانیہ بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ: مریم اور بلاول کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری
ریاست ماں جیسی ہوتی ہے یہ جملہ زبان زہ عام ہے، مگر ریاست کے کچھ ستون ہے جو اس کو مضبوط بناتے ہے. حکومت، قانون ساز ادارے اور عدلیہ اس پیچیدہ ریاستی نظام میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جو عام طور پر آئین میں درج اصول و ضوابط کے مطابق ہوتا ہے لیکن جب اس سے انحراف شروع ہو جائےاور متنازعہ ہونا شروع ہو جائے تو ریاستی مشینری  کام کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتی ہے اور ایک جمود کی کفایت طاری ہو جاتی ہے

ریاست پاکستان کے ساتھ بھی کچھ دونوں کے ساتھ یہی معاملہ درپیش ہے، ریاست کو مضبوط کرنے کی علامت حکومت کے خلاف اپوزیشن الائنس پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم)نے تحریک کا آغاز کیا ہوا ہے، جس کا مقصد اس حکومت کو گھر بھیجنا ہے کیونکہ یہ عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ سلیکٹرز کی چوائس ہے. ادھر اس بات کا تعین ضروری ہے کہ موجودہ حکومت کو دو سال کے بعد ہی تحریک کا سامنا کیوں ہے تو جواب سادہ اور اہل دانش کے لیے پیٹا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن والے بشمول اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں جو کسی نہ کسی ادوار میں حکومت کر چکی ہے، کرپٹ ترین، نااہل ترین، عوام کے پیسوں پر سرعام ڈاکے ڈالنے والے ہیں. نتیجتاً علی بابا چالیس چوروں کی رام کہانی معلوم ہوتی ہے. جب کہ حکومتی بیانیہ اپوزیشن والے رد کرتے ہوئے نطر آتے ہیں، جن کے مطابق U Trun ماسٹر حکومت پاکستان کا دیوالیہ نکال چکی ہے، حکومت کا ایسا کوئی شعبہ نہیں جو زوال پذیر ہو اور یہ اس سب ان کی ناکامی، نالائقی اور نا تجربہ کاری ہے اور اس بات کا اقرار حکومت والے کر دیتے ہیں کہ ہم ابھی سیکھ رہے ہیں گویا ریاستی سطح پر تجربہ گاہ کھولی ہوئی ہے.

پاکستان اس وقت ایک نئی سیاسی تاریخ لکھ رہا ہے، اس سے پہلے بھی بہت سے ایسے موقع آئے ہے جہاں تاریخ قلم بند کی گئی ہے لیکن اس دفعہ کچھ الگ ہے، ریاست کے تمام ادارے حکومت کی پشت پر کھڑے ہیں اور حکومت کی طرف اٹھنے والا ہر اشارہ اپنی طرف لے لیتے ہیں، تا کہ حکومت پر کوئی سایہ نہ پڑے لیکن ہر اشارے کے اپنے مطلب ہوتے ہیں جو حکومت اور ادارےطاقت کے گھمنڈ میں سمجھنے سے قاصر ہو جاتے ہیں. پاکستانی عوام جو کہ مہنگائی، بیروزگاری، بھوک اور افلاس سے گھری ہوئی ہے اسے کیا غرض طاقت کے ایوانوں میں کیا کھیل کھیلا جارہا ہے. پاکستانی عوام کو 92کے کرکٹ ورلڈ کپ کا ہیرو وزیراعظم ملا ہوا ہے جو کہ ریاست مدینہ جیسا نظام پاکستان کو دینا چاہتا ہے، فلسفہ ہو یا اسلامی تاریخ، مغرب کے سیاسی و سماجی نظام کی سمجھ و بوجھ میں اس کا کوئی ثانی نہیں اور ریاست کے ایک ادارے سے ایمانداری کا سرٹیفکیٹ بھی ملا ہوا ہے. دوسری طرف کا نقشہ انتہائی تجربہ کار معلوم ہوتا ہے نواز شریف تین دفعہ کے وزیر اعظم اپنی سیاسی اننگز جارہانہ کھیل رہے ہے اور وہ کچھ بول گئے ہیں جو آج کل تصور کیا جاتا ہے، آصف زرداری خاموش اور حالات کے نارمل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، جبکہ مولانا فضل الرحمن زیرک اندیشی کا استعمال کرتے ہوئے حملہ آور ہے.

گویا ایک طرف شفافیت کے علمبرداروں اور دوسری طرف کرپٹ لوگوں میں پنجہ آزمائی ہے. ریاست کے ادارے اسٹیبلشمنٹ اس وقت حکومت کا ساتھ دیتا نطر آتی ہے جبکہ اپوزیشن کا ماننا ہے کہ اس کو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے اور حکومت اور اپوزیشن کا مقابلہ خود کرنا چاہیے. وزیراعظم ہر تقریر میں کہ جاتے ہیں کہ ریاستی ادارے ہمارے ساتھ ہے کیونکہ ان لوگوں کی کرپشن کا معلوم ہے اور اس سے وہ اپوزیشن کے بیانیہ کو جلا بخش کر دیتے ہیں.

پی ڈی ایم تحریک کا آغاز کر چکی ہے، گوجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ کے کامیاب جلسوں کے بعد حکومتی سطح پر ہلچل ضرور ہے کیونکہ کہ نواز شریف کا بیانیہ سب پر حاوی نطر آ رہا ہے. حکومت کا کہنا اس کے پیچھے بھارت اور اسرائیل کارفرما ہے یہ عقل سے آرائی دلیل ہے اور غداری کا منجن بکتے معلوم نہیں ہوتا کیونکہ قلم بند تاریخ اس طرح کی داستانوں سے بھری پڑی ہے ہوئی ہے.

حالات اپنی سنگینی کی طرف مائل ہیں، ریاستی اداروں اور اپوزیشن میں بد اعتمادی کی فضا حالات کو بہتر نہیں بنا رہے اور اس کا نقصان پاکستان کو ہو گا۔ اس تمام صورتحال میں مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کا کردار سب سے نمایاں رہے گا کیونکہ یہ آنے والے دورکی نئی قیادت ہیں۔