Get Alerts

ہمارا ملک رہبروں کے بھیس میں چھپے رہزنوں کے ہاتھوں یرغمال ہے

عوامی مقبولیت رکھنے والی جماعتوں کے مقابلے میں اپنے زر خرید سیاست دانوں کے ذریعہ نئی جماعتیں بنا کر ان کے ووٹ کاٹتے ہیں تاکہ آنے والی حکومت ان کے زر خرید سیاست دانوں کو شامل کیے بغیر نہ بن سکے۔ ایم کیو ایم کس نے بنائی؟ ق لیگ کس کے دور میں بنی؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ تحریک انصاف کو بھی انہوں نے ہی تشکیل دیا تھا؟

ہمارا ملک رہبروں کے بھیس میں چھپے رہزنوں کے ہاتھوں یرغمال ہے

آج اگر عوام سیاست سے بیگانی اور سیاست دانوں سے بیزار نظر آتی ہے تو اس کی وجہ سیاست دانوں کے خلاف کیا جانے والا وہ پروپیگنڈا ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے شروع ہوا اور تاحال جاری ہے۔ جب ایک بات کو مسلسل دہرایا جائے گا تو سادہ لوح عوام کے اذہان اسے قبول کر ہی لیتے ہیں۔ اس جھوٹے اور مکروہ پروپیگنڈے کے پیچھے ہمارے وہی 'مہربان' ہیں جن کی وجہ سے آج ملک اس حال کو پہنچا ہے۔

جب سے شعور بیدار ہوا ہے، ایک ہی بات سنتے آ رہے ہیں کہ سیاست دان خائن ہیں اور ملک و قوم کا درد اگر کسی کے دل میں ہے تو وہ ہمارے 'مہربان' ہی ہیں۔ اگر شعور کی آنکھ سے دیکھا جائے تو یہ رہبر کے روپ میں چھپے رہزن ہیں۔ مملکت خدادا اگر ڈیفالٹ کے دہانے تک پہنچی تو اس کی وجہ بھی ہمارے یہی 'مہربان' ہیں۔ کیا وہ ہمارے 'مہربانوں' میں سے نہیں تھا جس نے 2017 میں ملک کو ترقی کی جانب لے جاتی حکومت کے بارے میں کہا تھا کہ معیشت اگر خراب نہیں تو اتنی اچھی بھی نہیں؟

عوامی مقبولیت رکھنے والی جماعتوں کے مقابلے میں اپنے زر خرید سیاست دانوں کے ذریعہ نئی جماعتیں بنا کر ان کے ووٹ کاٹتے ہیں تاکہ آنے والی حکومت ان کے زر خرید سیاست دانوں کو شامل کیے بغیر نہ بن سکے۔ ایم کیو ایم کس نے بنائی؟ ق لیگ کس کے دور میں بنی؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ تحریک انصاف کو بھی انہوں نے ہی تشکیل دیا تھا؟ جنوبی صوبہ محاذ کس کی آشیرباد سے معرض وجود میں آیا تھا؟ عمران نیازی کو بھان متی کا کنبہ کس نے بنا کر دیا تھا؟ کون قومی اسمبلی کی کارروائی چلا رہا تھا؟

ذاتی مفاد کا کھیل کھیلتے کھیلتے ہمارے 'مہربانوں' نے ملک کی سلامتی کو ہی داؤ پر لگا دیا، لیکن انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان سے پہلے ریٹائر ہونے والوں نے کب ملک کو قیام کے لائق سمجھا جو یہ سمجھیں گے؟

یہ موضوع کیونکہ طوالت کا متقاضی ہے اس لئے دل کے باقی پھپھولے آئندہ کی قسط میں پھوڑوں گا۔ میں جانتا ہوں کہ میرے نالوں سے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آنی لیکن کم از کم اپنے ضمیر کے بوجھ کو کچھ ہلکا تو کر سکوں گا۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔