تصویر بشکریہ دی انڈیپینڈینٹ
یہ مضمون ظفر سید نے دی انڈیپینڈنٹ اردو کے لئے لکھا ہے۔ جسے نیا دور اپنے قارین کے لئے پیش کر رہا ہے۔
1973 سے اب تک پاکستان 927 ایک روزہ میچ کھیل چکا ہے۔ 37 برس کے اس طویل سفر میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے اور اس دوران پاکستان ایک ورلڈ کپ اور ایک چیمپیئنز ٹرافی کے علاوہ متعدد دوسرے چھوٹے بڑے ٹورنامنٹ جیتنے میں کامیاب رہا۔
تاہم ایک سوال جو شاید اب تک نہیں اٹھایا گیا وہ یہ کہ اس سفر کے دوران پاکستان کی طرف سے بلے بازی کے شعبے میں کسی ایک اننگز میں سب سے اچھی کارکردگی کس نے دکھائی؟
ہم نے اسی سوال کا جواب دینے کے لیے اعداد و شمار کے دریا میں چھلانگ لگائی تو کئی موتی ہاتھ لگے، اور انہی میں سے ٹاپ ٹین آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔ لیکن اس سے پہلے میں ذرا اپنے طریقۂ کار کی وضاحت کر دوں۔
میں نے اس انتخاب کے لیے چار چیزوں کو مدِ نظر رکھا ہے۔ بلے باز نے میچ جتوانے میں کتنا بڑا کردار ادا کیا؟ ایسی اننگز میرے نزدیک زیادہ اہم ہیں جہاں ایک بلے باز نے آ کر تنِ تنہا ہاری ہوئی بازی پلٹ دی۔
مخالف ٹیم کے بولروں کا معیار کیا تھا؟ بلے باز نے کس حد تک خود کو مخالف بولنگ پر حاوی کیا؟ اور بلے باز پر اس اننگز کے دوران کتنا دباؤ تھا؟
آخری نکتہ بہت اہم ہے کیوں کہ دباؤ میں کھیلنا ہی کھلاڑی کی صلاحیتوں کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ دو طرفہ میچوں میں نسبتاً کم دباؤ ہوتا ہے، لیکن جتنا بڑا ٹورنامنٹ ہوتا ہے، دباؤ اسی شرح سے بڑھتا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت پاکستان کے میچوں میں کھلاڑیوں پر اضافی دباؤ ہوتا ہے۔
اس طویل مگر ضروری وضاحت کے بعد آگے چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ پچھلے 37 برس میں کس کس نے اپنے جوہر دکھائے ہیں۔
10
اعجاز احمد: ٭139 رنز، بمقابلہ بھارت، لاہور، دو اکتوبر 1997
یہ سیریز کا تیسرا اور آخری میچ تھا اور اسی پر سیریز کا فیصلہ ہونا تھا کیوں کہ مقابلہ ایک، ایک سے برابر تھا۔ بھارت نے 216 رنز بنائے تھے جو اتنا بڑا سکور نہیں تھا کہ پاکستانی بلے بازوں کو کچھ زیادہ جلدی ہوتی، لیکن اعجاز احمد تو کچھ اور موڈ بنا کر آئے تھے۔ انہوں نے جس طرح سے بھارتی بولروں کا جلوس نکالا وہ دیکھنے والوں کے ذہنوں میں آج بھی تازہ ہے۔
م نے اوپر جو معیار مقرر کیا، یہ اننگز اصول نمبر تین کی آئیڈیل مثال ہے۔
اعجاز احمد نے بعد میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ میچ سے پہلے ان کی کرکٹ بورڈ کے سربراہ ماجد خان سے میچ فیس کے معاملے پر تو تو میں میں ہو گئی تھی اور ماجد خان نے کہہ دیا تھا کہ یہ تمہارا آخری میچ ہے۔ شاید اعجاز نے اسی کا غصہ بھارتی ٹیم پر نکال دیا اور صرف 84 گیندوں پر 139 رنز کی اننگز کھیلی جس میں نو چھکے شامل تھے۔
9
فخرزمان: 114 رنز، بمقابلہ بھارت، اوول، 18 جون 2017
چیمپیئنز ٹرافی کا فائنل، روایتی حریف آمنے سامنے، ایک ارب سے زیادہ پرجوش نظریں میچ پر مرکوز، بھارت کی مضبوط بولنگ لائن، چست فیلڈنگ اور شاطر گیم پلان۔
فخر زمان نے ان میں سے کسی چیز کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وہ اننگز کھیلی جس کا خواب بڑے بڑے بلے باز دیکھتے ہیں۔ اس میچ میں فخر نے 106 گیندوں پر 114 رنز بنائے اور پاکستان کو 338 رنز کا پہاڑ کھڑا کرنے میں مدد دی، جس کا بھارت کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
8
شاہد آفریدی: 102 رنز، بمقابلہ سری لنکا، نیروبی، چار اکتوبر 1996
یہ میچ پاکستان میں ٹیلی ویژن پر نہیں دکھایا گیا تھا۔ میں نے جب ریڈیو پر خبروں میں پاکستان کا سکور 371 رنز سنا، تو ذہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ نیوز ریڈر سے غلطی ہوئی ہے، سکور 271 ہو گا، شاہد آفریدی کے کارنامے کا بعد میں پتہ چلا جنہوں نے اس وقت کی تیز ترین سینچری صرف 37 گیندوں پر سکور کی تھی۔
سری لنکا کی بولنگ بری نہیں تھی اور اس میں متھیا مرلی دھرن اور چمندا واس جیسے تجربہ کار اور ہنر مند بولر کھیل رہے تھے۔ دو باتیں مزید حیرت کا باعث ہیں۔ ایک تو یہ آفریدی کا پہلا میچ تھا اور دوسرے یہ کہ وہ ٹیم میں بطور بولر شامل کیے گئے تھے۔
7
باسط علی: ٭127 رنز، بمقابلہ ویسٹ انڈیز، شارجہ، نومبر 1993
اعجاز احمد کی اننگز یقیناً یادگار ہے لیکن وہ انہوں نے بھارت کے نسبتاً کمزور بولنگ اٹیک کے خلاف بنائی تھی۔ اس کے مقابلے میں باسط علی نے ایمبروز، والش، کمنز اور ہوپر جیسے بولروں کے خلاف وکٹ کے چاروں طرف شاندار سٹروک کھیلے۔
باسط جب بیٹنگ کے لیے آئے تو 35 اوورز میں پاکستان صرف 112 رنز جوڑ پایا تھا، لیکن ان کے شعلے اگلتے بلے کی بدولت پاکستان نے اگلے 15 اوورز میں 172 رنز سکور کر ڈالے۔
یہ اس فہرست کا واحد میچ ہے جو پاکستان ہار گیا تھا، لیکن اصول نمبر تین کا اطلاق جس طرح اس اننگز پر ہوتا ہے، وہ کسی اور اننگز پر نہیں ہوتا۔
البتہ اس کا افسوس ہے کہ باسط علی ان بلندیوں کو کبھی دوبارہ نہیں چھو پائے۔
آصف مجتبیٰ: ٭60 رنز، بمقابلہ آسٹریلیا، پرتھ، دو جنوری 1987
آسٹریلیا نے جب ڈین جونز کی سینچری کی بدولت 273 رنز بنا لیے، جو آج کل کے حساب سے 373 کے برابر تھے، تو طے ہو گیا کہ پاکستان ابھی سے ہار گیا ہے۔ اس کی مزید تائید اس وقت ہوئی جب 129 رنز پر پاکستان کے چھ کھلاڑی پویلین لوٹ گئے۔ پھر جب منظور الہٰی 181 پر آؤٹ ہوئے تو رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی۔
لیکن آصف مجتبیٰ کے ارادے کچھ اور تھے۔ وہ پہلے سلیم یوسف اور پھر وسیم اکرم کے ساتھ عمدہ شراکت داریاں جوڑ کر آسٹریلیا کے سکور کے قریب پہنچ گئے۔ آخری چار اوورز میں 40 رنز درکار تھے جو اس زمانے میں تقریباً ناممکن ہدف سمجھا جاتا تھا، لیکن آصف مجتبیٰ نے آخری اوور کی پانچویں گیند پر پاکستان کو فتح سے ہمکنار کروا دیا۔
اس میچ کی ایک دلچسپ بات آج بھی یاد ہے کہ مین آف دا میچ کا فیصلہ کرنے کے لیے سابق آسٹریلوی وکٹ کیپر جیف مارش کو جج مقرر کیا گیا تھا، جو میچ ختم ہونے سے خاصی دیر پہلے ڈین جونز کو مین آف دا میچ قرار دے کر گھر چلے گئے کیوں کہ ان کے خیال میں بظاہر میچ ختم ہو گیا تھا۔
آصف مجتبیٰ نے پانچ سال بعد اسی قسم کی ایک اور اننگز کھیلی تھی، جس میں انہوں نے آسٹریلیا ہی کے خلاف آخری گیند پر چھکا لگا کر میچ برابر کروایا تھا۔ تاہم باسط علی کی طرح ان کا کیریئر بھی زیادہ آگے نہ چل سکا۔
5
سعید انور: 194 رنز، بمقابلہ بھارت، چینئی، 21 مئی، 1997
یہ ایک روزہ میچوں کا اس وقت کا سب سے بڑا انفرادی سکور تھا۔ سعید انور نے شدید گرمی میں کھیلتے ہوئے کریمپس کے باوجود بھارتی بولروں کو جس انداز سے دھول چٹائی، وہ بھلائے نہیں بھولے گی۔ سعید انور کی اس اننگز میں 22 چوکے اور پانچ چھکے شامل تھے۔
سعید بڑی آسانی سے ڈبل سینچری بنا سکتے تھے کیوں کہ ابھی تین اوور باقی تھے لیکن وہ سچن تندولکر کی ایک گیند پر کیچ آؤٹ ہو گئے۔ 13 سال بعد تندولکر نے یہ ریکارڈ توڑا اور محدود اوورز کے فارمیٹ کی پہلی ڈبل سینچری سکور کی۔
انضمام الحق: 60 رنز، بمقابلہ نیوزی لینڈ، آک لینڈ، 21 مارچ 1992
انضمام کی اس اننگز میں وہ تمام کلاسک خصوصیات موجود ہیں جن کا ذکر ہم نے تمہید میں کیا تھا۔ یہ ورلڈ کپ کا سیمی فائنل تھا اور سامنے نیوزی لینڈ کی ٹیم تھی جو اپنے ہوم گراؤنڈ پر سیسہ پلائی دیوار تھی اور انہوں نے اس پریشر میچ میں 262 رنز کا بےحد مشکل ہدف دیا تھا۔
جس وقت انضمام کریز پر پہنچے، اس وقت 34 اوورز میں پاکستان صرف 130 رنز بنا پایا تھا اور اس کے چار چوٹی کے بلے باز آؤٹ ہو چکے تھے۔
ایسا لگ رہا تھا کہ نیوزی لینڈ نے ایک قدم فائنل میں جما لیا ہے لیکن انضمام کے ارادے کچھ اور تھے۔ انہوں نے آتے ہی جس بےفکری اور اعتماد سے نیوزی لینڈ کے بولروں کو گراؤنڈ کے چاروں طرف کھیلا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
3
سلیم ملک: ٭72 رنز، بمقابلہ بھارت، کلکتہ، 18 فروری 1987
سلیم ملک نے غیر متوقع طریقے سے یکسر ہاری ہوئی بازی کا نقشہ پلٹتے ہوئے کلکتہ (موجودہ کولکتہ) کے ایڈن گارڈن سٹیڈیم میں موجود ایک لاکھ تماشائیوں کے شور شرابے کو ویرانے جیسی خاموشی میں تبدیل کر دیا۔
بھارت نے 40 اوورز میں 238 رنز بنائے تھے جو ایک سلو وکٹ پر کپل دیو، منندر سنگھ اور روی شاستری جیسے بولروں کی موجودگی میں ہمالیہ جتنا بلند دکھائی دے رہا تھا۔
پاکستانی بلے باز جلدی جلدی سٹروک کھیل کر وکٹیں گنواتے رہے۔ جب 174 رنز پر عمران خان آؤٹ ہوئے تو بظاہر آخری امید بھی ختم ہو گئی۔ اب 12 رنز کی اوسط سے رنز درکار تھے لیکن ساتویں نمبر پر آنے والے سلیم ملک کچھ اور ہی ارادے لے کر آئے تھے۔
شاید انہیں اس بات پر برہمی تھی کہ عمران خان نے عبدالقادر اور منظور الٰہی کو ان سے پہلے کیوں بھیجا۔ ملک نے کپل دیو اور منندر سنگھ کے اگلے دو اووروں میں 35 رنز بنا کر پلڑا پاکستان کے حق میں جھکا دیا۔
2
عبدالرزاق: ٭109 رنز بمقابلہ جنوبی افریقہ، ابوظہبی، 31 اکتوبر 2010
یہ نہ صرف پاکستان کی بلکہ بین الاقوامی کرکٹ کی یادگار ترین اننگز میں سے ایک ہے۔ فارمولا فلموں کی طرح اس کی کہانی بھی جانی پہچانی ہے۔
جنوبی افریقہ کی جانب سے 286 رنز کا مشکل ہدف، مضبوط بولنگ اٹیک، پھرتیلی فیلڈنگ۔ آفریدی اور فواد عالم نے بھی اچھی بیٹنگ کی تھی، مگر جب وکٹ کیپر ذوالقرنین حیدر آؤٹ ہوئے تو ہدف ابھی 59 رنز دور تھا، جو صرف 29 گیندوں پر حاصل کرنا تھا اور رزاق کا ساتھ دینے کے لیے صرف تین وکٹیں بچی تھیں۔
پھر جب وہاب ریاض بھی آؤٹ ہو گئے تو رزاق کو سٹرائیک بھی کنٹرول کرنا پڑی تاکہ سعید اجمل اور آخر میں شعیب اختر کو زیادہ گیندیں نہ کھیلنا پڑیں۔ اس دوران انہوں نے کئی سنگل رن نہیں لیے ورنہ ان کا سکور مزید بہتر ہوتا۔
اس کے باوجود رزاق سیدھے بلے کے ساتھ کلین ہٹنگ کرتے گئے اور 12 رنز فی اوور کی رفتار سے رنز بناتے چلے گئے۔ آخری اوور میں 14 رنز درکار تھے اور آخری وکٹ تھی، لیکن رزاق نے دوسری گیند پر چھکا لگایا، پھر تیسری گیند پر ایک اور چھکا لگا کر صرف 70 گیندوں پر اپنی سینچری مکمل کی اور پھر پانچویں گیند پر چوکا لگا کر میچ جتوا دیا۔
1
جاوید میانداد: ٭116 رنز، بمقابلہ بھارت، شارجہ 18 اپریل 1986
اس فہرست کی دوسری پوزیشنوں پر اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن میرے خیال سے پہلی پوزیشن ہر شک و شبے سے بالاتر ہے۔ ایک تو بھارت کے خلاف میچ، پھر ایک بڑے ٹورنامنٹ کا فائنل، پھر آخری گیند پر چھکا لگا کر میچ جیتنا، اس سے بڑھ کر کوئی اور اننگز کیا ہو گی۔
بھارت نے سنیل گواسکر کے 92 رنز کی بدولت 50 اوورز میں پاکستان کو 247 رنز کا ٹارگٹ دیا تھا، جو اس زمانے کے لحاظ سے انتہائی مشکل تھا۔ پاکستان بلے باز اوپر تلے آؤٹ ہوتے چلے گئے اور میچ مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔
آخری اوور میں 10 رنز درکار تھے لیکن سٹرائیک میانداد کے ہاتھ سے چلی گئی۔ بھلا ہو توصیف احمد کا کہ انہوں نے پانچویں گیند پر سنگل لے کر میانداد کو موقع فراہم کر دیا جسے انہوں نے دونوں ہاتھوں سے تھام کر تاریخ کے صفحوں پر رقم کر دیا۔
چیتن شرما بےچارے اچھے خاصے بولر تھے اور انہیں ایک روزہ کرکٹ میں ہیٹ ٹرک کرنے کا اعزاز بھی حاصل تھا، لیکن اس ایک فل ٹاس نے ان کا کیریئر داغ دار کر دیا۔
اور آخر میں بونس کے طور پر چند اور شاندار اننگز جو ٹاپ ٹین میں نہ آ سکیں:
آصف مجتبیٰ: ٭56 رنز، بمقابلہ آسٹریلیا، ہوبارٹ، 10 دسمبر، 1992
شاہد آفریدی: ٭34 رنز، بمقابلہ بھارت، ڈھاکہ، دو مارچ، 2014
شاہد آفریدی: 59 رنز، بمقابلہ بنگلہ دیش، چار مارچ، 2014