Get Alerts

'اب جیل سے چودھری پرویز الہیٰ کی ہڈیاں ہی باہر آئیں گی'

چودھری پرویز الہیٰ کو اڈیالہ جیل میں قید کیا جا چکا ہے۔ اب انہیں لاہور ہائیکورٹ طلب کر سکتی ہے اور نا ہی رہا کروا سکتی ہے کیونکہ اب وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے واضح پیغام ہے کہ اب پرویز الہیٰ کے پاس کوئی اور چارہ نہیں، یا تو وہ اپنی قربانی دیں گے یا پھر بیٹے کے سیاسی مستقبل کی۔

'اب جیل سے چودھری پرویز الہیٰ کی ہڈیاں ہی باہر آئیں گی'

لاہور ہائی کورٹ سے رہائی کا حکم نامہ لینے کے بعد پولیس اہلکار جب پرویز الہیٰ کو ان کے گھر چھوڑنے جا رہے تھے تو ان کی گاڑی کو نقاب پوش اہلکاروں نے روک کر انہیں پھر سے گرفتار کر لیا۔ جب نقاب پوش اہلکار چودھری پرویز الہیٰ کو پولیس کی گاڑی سے نکال کر گود میں اٹھائے لیے جا رہے تھے تو ان میں سے ایک نے کہا کہ 'اب جیل سے چودھری پرویز الہیٰ کی ہڈیاں ہی باہر آئیں گی'۔ یہ انکشاف کیا ہے سینیئر صحافی جاوید چودھری نے۔

یوٹیوب پر اپنے حالیہ وی-لاگ میں جاوید چودھری نے چودھری پرویز الہیٰ کی گرفتاری کی روداد سناتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے چودھری پرویز الہیٰ کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا بھی حکم جاری کیا تھا تاہم کہانی میں ڈرامائی ٹوئسٹ تب آیا جب انہیں رہائی کے بعد پھر سے گرفتار کر لیا گیا۔

جب چودھری صاحب نیب کی حراست میں تھے تو ان کی پٹیشن جسٹس امجد رفیق کی عدالت میں آئی۔ دونوں کے دیرینہ تعلقات ہیں اور دونوں ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ جسٹس امجد رفیق نے نیب کو دو دن تک زچ کیے رکھا اور چودھری پرویز الہیٰ کو پیش کرنے کا حکم جاری کیا تاہم نیب کی جانب سے عدالت کو کسی نہ کسی بہانے سے ٹال دیا جاتا۔ کل بھی جب چودھری پرویز الہیٰ کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا تو جج صاحب نے آرڈر جاری کیا کہ حکومت کو چھوڑیں، آپ پرویز الہٰی کو پیش کریں۔ حکومت نیب کے ساتھ تعاون نہیں کرتی تو نہ کرے، پرویز الہٰی کو ایک گھنٹے کے اندر اندر عدالت میں پیش کریں۔ اگر پیش نہ کیا گیا تو ڈی جی نیب لاہور کے وارنٹ گرفتاری جاری کریں گے۔

اس عدالتی حکم پر نیب نے ایک گھنٹے میں پرویز الہیٰ کو عدالت میں پیش کر دیا۔ ان کو دیکھ کر جج صاحب کی مسکراہٹ ویسی ہی تھی جیسی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے چہرے پر عمران خان کو دیکھ کر 'گُڈ ٹو سی یُو' کہنے کے بعد آئی تھی۔ اس کے بعد جسٹس امجد رفیق نے پرویز الہیٰ کی فوری رہائی کا حکم سنایا اور کہا کہ اینٹی کرپشن اور نیب انہیں گرفتار نہیں کرے گی۔ وہیں عدالت میں ہی نیب نے تمام انکوائری مکمل کی اور چودھری پرویز الہیٰ کی رہائی کا حکم جاری کر دیا۔

چودھری پرویز الہیٰ نے جج صاحب سے کہا کہ جب تک تحریری حکم نامہ نہیں جاری ہو گا تب تک میں عدالتی احاطے سے باہر نہیں جاؤں گا کیونکہ خدشہ ہے پولیس مجھے دوبارہ گرفتار کر لے گی۔ اس کے بعد جج صاحب نے ان کو اپنے چیمبر میں بلا لیا اور تحریری حکم نامہ تیار کروا کر نیب اور اینٹی کرپشن کے حوالے کیا گیا۔

چودھری صاحب نے جج صاحب سے مطالبہ کیا کہ آپ پولیس سے کہیں کہ وہ اپنی نگرانی میں مجھے گھر چھوڑ کر آئے۔ جج صاحب نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے عدالت میں موجود 2 ڈی آئی جیز علی رضوی اور عمران کشور کو ہدایت دی کہ پولیس نگرانی میں انہیں گھر پہنچا کر آئیں۔ اس پیش رفت پر وکیل لطیف کھوسہ سمیت وکلا نے جشن منایا اور نعرے بازی کی۔

دونوں ڈی آئی جیز نے چودھری پرویز الہیٰ کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور انہیں لے کر روانہ ہو گئے۔ اس گاڑی کے آگے اور پیچھے پولیس کی گاڑیاں تھیں۔ چودھری پرویز الہیٰ کے گھر کے قریب ظہور الہیٰ روڈ پر ان گاڑیوں کو روک لیا گیا۔ وہاں پہلے سے ایک گاڑی کھڑی تھی جس میں نقاب پوش اہلکار موجود تھے۔ وہ اس گاڑی تک آئے جس میں چودھری صاحب تھے اور انہیں سختی سے کہا گیا کہ باہر نکلیں۔ لطیف کھوسہ صاحب جو چودھری صاحب کے لیے خون پسینہ وقف کر چکے تھے، سب سے پہلے وہاں سے نو دو گیارہ ہوئے۔ اس کے بعد ان اہلکاروں نے جن کا تعلق پولیس، فوج یا رینجرز سے ہو سکتا ہے، پرویز الہیٰ کو گود میں اٹھایا اور تیزی سے گاڑی کی جانب لے جانے لگے۔ تب چودھری پرویز الہیٰ کے اہل خانہ میں سے ایک شخص اہلکاروں کی جانب بڑھا اور پوچھا کہ چودھری پرویز الہیٰ کو رہائی ملے گی بھی یا نہیں؟ تو ان میں سے ایک نے جواب دیا؛ 'اب جیل سے چودھری پرویز الہیٰ کی ہڈیاں ہی باہر آئیں گی'۔

اس دوران دونوں ڈی آئی جیز حیران پریشان کھڑے تھے اور لوگوں سے پوچھ رہے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کسی پولیس اہلکار کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔ انہوں نے سوچا کہ ابھی ممکنہ طور پر پرویز الہیٰ کو سول لائنز پولیس سٹیشن لے جا کر پہلے ان کی گرفتاری ڈالی جائے گی، پھر انہیں جیل لے جایا جائے گا۔ جب یہ اہلکار سول لائنز پولیس سٹیشن پہنچے تو وہاں ابھی تک کوئی نہیں آیا تھا۔ اسی دوران افواہ پھیلی کہ ایئرپورٹ پر ان کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھیجنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ وہاں گئے تو وہاں بھی کچھ ہاتھ نہ لگا۔ پولیس اور وکلا کو چکما دے کر نقاب پوش اہلکار اتنی دیر میں چودھری پرویز الہیٰ کو لے کر بذریعہ موٹروے اسلام آباد کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔

چودھری پرویز الہیٰ کو تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا اور انہیں 1 مہینے کے لیے اڈیالہ جیل میں قید کیا جا چکا ہے۔ اب انہیں لاہور ہائیکورٹ طلب کر سکتی ہے اور نا ہی رہا کروا سکتی ہے کیونکہ اب وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں ہیں۔

جاوید چودھری کے مطابق چودھری شجاعت بارہا پرویز الہیٰ سے کہہ چکے ہیں کہ بھائی آپ نے صرف دو لفظ بولنے ہیں، اس کے بعد آپ باعزت گھر چلے جائیں گے۔ لیکن دو وجوہات ہیں جن کے تحت وہ ایسا نہیں کرنا چاہ رہے۔ پرویز الہیٰ چاہتے ہیں کہ ان کے بعد صاحبزادے مونس الہیٰ کا سیاسی کریئر ختم نہ ہو۔ کیونکہ اگر آج چودھری پرویز الہیٰ سمجھوتہ کر لیں گے تو مونس الہیٰ بھی پی ٹی آئی سے فارغ ہو جائیں گے اور اگر ایسا ہوا تو مونس کا سیاسی مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ چودھری صاحب اپنے بیٹے کے لیے مسلسل قربانی دے رہے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ چودھری پرویز الہیٰ کے عدلیہ میں بہت گہرے تعلقات ہیں۔ انہیں جس بھی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے، جج صاحب ان کو دیکھتے ہی نیب، پولیس اور حکومت پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ چودھری صاحب کو لگتا تھا کہ آج نہیں تو کل ان کو عدالت کی جانب سے ریلیف مل ہی جائے گا۔ تو جب میں عزت کے ساتھ گھر جا سکتا ہوں تو 2، 4 مہینے کی مشکل کاٹ لیتا ہوں۔

جاوید چودھری کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے واضح پیغام ہے کہ اب پرویز الہیٰ کے پاس کوئی اور چارہ نہیں، یا تو وہ اپنی قربانی دیں گے یا پھر بیٹے کے سیاسی مستقبل کی۔