Get Alerts

قبائلی اضلاع کے عمائدین ایک بار پھر دہشگردوں کے نشانہ پر کیوں؟

قبائلی اضلاع کے عمائدین ایک بار پھر دہشگردوں کے نشانہ پر کیوں؟

 نائن الیون کے بعد جب افغانستان کے سرزمین پر طالبان کی  حکومت کا خاتمہ ہوا  اور جنگ شروع ہوئی تو افغانستان سمیت پاکستان کے قبائلی اضلاع اور خیبر پختونخوا بھی جنگ کی لپیٹ میں آگیا اور دہشتگری کے شعلے ہر طرف محسوس ہونے لگے۔ سال 2008 میں تحریک طالبان پاکستان کے قیام کے بعد جب سابقہ فاٹا میں فوجی اپریشنز شروع ہوئے تو فوج کے ساتھ ساتھ قبائلی عمائدین  بھی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے  جن کی پاداش میں دو ہزار سے زیادہ قبائلی مشران شہیدکئے گئے اور ان کو  کو ملک کے کونے کونے میں بم دھماکوں ، خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں مارا گیا ۔


 سال 2017 کے دوران حکومت اور عسکری قیادت نے قبائلی اضلاع میں لوگوں کو مسلح کرنا شروع کردیا اور مقامی مشران کی سربراہی میں پورے قبائلی اضلاع اور ایف آرز  کے علاقوں میں امن  کمیٹیاں بنائی گئی جن کی ذمہ داری نہ صرف اپنے علاقے میں امن و امان کو یقینی بنانا تھا بلکہ اس کے ساتھ سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر اپنے علاقوں سے دہشتگردی کا خاتمہ کرنا تھا۔ قبائلی عوام کو مسلح کرنے پر نہ صرف ملک کے اندر سے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی تنقید شروع ہوئی اوراس کوشش کو  ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف وزری قرار دیا گیا۔  واضح رہے کہ بعض قبائلی عمائدین نے اپنی مرضی سے امن کمیٹیاں بنا دی جبکہ کچھ لوگوں کی جانب سے انکار سامنے آنے کے بعد ان کو ہراساں اور دھمکیاں دی گئی جس کے بعد وہ امن کمیٹیاں بنانے پر راضی ہوئے۔


امن کمیٹیوں کے قیام کے بعد پہلے تحریک طالبان پاکستان اور پھر ان سے الگ ہونے والی تنظیم جماعت الحرار نے ان کے خلاف جنگ کا ایک نیا محاذ کھول دیا اور فاٹا ریسرچ سنٹر کے اعداد و شمار کے مطابق  سال دو ہزار سولہ تک چودہ سو سےزائد  قبائلی مشران کو مارا جاچکا ہے اور یہ اعداد و شمار اب دو ہزار سے زیادہ ہے۔ قبائلی اضلاع کے حالات حاضرہ اگر جائزہ لیا جائے تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا کہ سیکیورٹی فورسز سے زیادہ قربانیاں قبائلی اضلاع کے عمائدین نے دی جنھوں نے امن کمیٹیوں کی شکل میں عسکریت پسندوں کے خلاف سخت مزاحمت کی اور نہ صرف خودطالبان کا نشانہ بنے بلکہ ان کے بچوں اور رشتہ داروں کو بھی ملک کے مختلف شہروں میں طالبان کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔


گزشتہ دو مہینوں سے قبائلی اضلاع میں ایک بار پھر قبائلی عمائدین عسکریت پسندوں کے نشانہ پر جبکہ گزشتہ  روز شمالی وزیرستان میں چار قبائلی عمائدین کو ایک گاڑی میں نشانہ بنایا گیا جن میں چاروں جان بحق ہوگئے ۔ اس  حملے کے دو روز بعد قبائلی ضلع باجوڑ میں بدھ کے روز دو قبائلی عمائدین کو نشانہ بنایا گیا ۔ فاٹا ریسرچ سنٹر کے دستاویزات کے مطابق  سال 2020 کے گیارہ مہینوں میں 44 قبائلی عمائدین کو صرف شمالی وزیرستان میں مارا گیا۔


فاٹا ریسرچ سنٹر  اسلام آباد سے بطور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر منسلک منور خان محسود نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ مولوی فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد جب تحریک طالبان پاکستان کی کمان دوبارہ محسود کمانڈر مفتی نور ولی محسود کے ہاتھ میں آئی تو ان کی پہلی کوشش یہی تھی کہ وہ طالبان کے مختلف دھڑوں کو یکجا کرکے تحریک طالبان کے چھتری تلے جمع کریں اور وہ اس کوشش میں کامیاب بھی ہوگئے کیونکہ کچھ مہینوں سے مختلف دھڑیں تحریک طالبان میں ضم ہورہے ہیں جن سے تحریک ایک بار پھر منظم اور مضبوط ہورہی ہے۔


انھوں نے مزید کہا کہ ایک طرف طالبان مضبوط اور منظم ہورہے ہیں تو دوسری جانب افغانستان امن معاہدہ بھی ایک بنیادی وجہ ہے کیونکہ اگر یہ معاہدہ پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے تو پھر افغانستان اس بات پر مجبور ہوگا کہ وہ اپنی سرزمین کو امریکہ یا پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینگے اور پھر اُس صورت میں پاکستانی طالبان کے لئے افغانستان میں رہنا مشکل ہوجائے گا اور یہی وہ بنیادی وجوہات ہے کہ واپس آنے کی جدوجہد کررہے ہیں ۔


انھوں نے مزید کہا کہ اگر ایک طرف قبائلی عمائدین عوام اور حکومت کے درمیان رابطے کے طور پر ایک پل کا کردار ادا کررہے ہیں تو دوسری جانب وہ ماضی کی طرف اب بھی عسکریت پسند تنظیموں کے لئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں اس لئے قبائلی مشران اور سیاسی کارکن اُن کے نشانے پر ہے تاکہ نہ صرف ان میں خوف اور ڈر پیدا کریں بلکہ اس کے ساتھ ان کو امن و امان میں کوئی کردار ادا کرنے سے روکا جاسکے۔ ان کا ماننا ہے کہ مستقبل میں ان حملوں میں مزید تیزی آئے گی اور جو بھی عسکریت پسندوں کے لئے مستقبل میں مسائل پیدا کرسکتے ہیں ان کو نشانہ بنایا جائے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اپریشن ضرب عضب کے بعد قبائلی عمائدین پر حملوں میں کمی آئی مگر اب جب ایک طرف ریاستی عملداری کمزور ہورہی ہے تو دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان پھر سے مضبوط ہورہے ہیں۔


 جب قبائلی اضلاع میں ابھی دہشگردی ختم نہیں ہوئی تھی تو حکومت اور عسکری اداروں کی پالیسی میں ایک نیا موڑ اآیا اور قبائلی عمائدین کو کو غیر مسلح کیا گیا  اور اس پالیسی کے تخت نہ صرف ان سے اسلحہ واپس لیا گیا بلکہ حکومت کی جانب سے ان کی سیکیورٹی بھی واپس لی گئی جس کے بعد عسکریت پسند تنظیموں کے لئے ان کو نشانہ بنانا مزید آسان ہوا اور ان کو  تلاش کرکے پشاور، راولپنڈی ، لاہور اور کراچی میں بھی مارا گیا۔


حکومت کی جانب سے غیر مسلح کرنے کے بعد انھوں نے حکومت سے احتجاج کیا کہ  عسکریت پسند تنظیمیں تاحال موجود ہے اور  ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہے مگر حکومت نے ان کی فریاد نہیں سنی اور عسکریت پسندوں نے ان پر زمین تنگ کرکے اُن کو چن چن کر مارا ۔ قبائلی عمائدین نے نہ صرف عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف لڑائی لڑی بلکہ قبائلی اضلاع کے کچھ علاقوں میں رات کو وہ سیکیورٹی فورسز کے کیمپس اور چیک پوسٹوں کی حفاظت پر بھی کرتے رہے کیونکہ حملے یا نقصان کی صورت میں اُن کے قبیلے کو اجتماعی زمہ داری کے قانون کے تخت مزید مسائل کا سامنا رہتا تھا۔


پشاور میں رہائش پذیر تحقیقاتی صحافی اور سیکیورٹی امور کے ماہر سید فخر کاکا خیل نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ٹارگٹ کلنگ کو ہمیشہ سطحی طور پر لیا جاتا ہے جو کہ حقیقت کے برعکس ہے کیونکہ ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے ہمیشہ سیاسی، عسکری یا دوسرے عزائم ہوتے ہیں جن کا حاصل کرنے کے لئے اپنے دشمنوں کو اکیلے اکیلے نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ ایک طرف خوف پھیلایا جاسکے تو دوسری جانب اپنے عزائم حاصل کئے جاسکے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر اپ تاریخ پر نظر ڈالے تو اسرائیل نے مصری کرنل حافظ مصطفیٰ کو اس وجہ سے نشانہ بنایا کہ اُن کو شک تھا کہ حافظ مصطفی ٰ فلسطین مہاجرین کو اسرائیل کے خلاف استعمال کرکے نشانہ بناسکتے ہیں اور یہی سے ٹارگٹ کلنگ کا آغاز ہوا اور پوری دنیا میں پھیل گیا۔


انھوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں اپنے سیاسی اور عسکری عزائم حاصل کرنے کے لئے ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی اور پھر یہ واقعات سابقہ فاٹا اور پھر خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر شہروں تک پھیل گئے۔


 انھوں نے مزید کہا کہ ٹارگٹ کلنگ میں ہمیشہ غیر معروف لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جیسے کے قبائلی مشران کو قتل کرنے کا نیا محاذ کھل گیا کیونکہ ان کو ٹارگٹ کرکے نہ صرف لوگوں میں خوف اور ڈر پیدا کیا جاسکتا ہے بلکہ اپنے مقاصد بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں اور عسکریت پسند تنظیموں کی یہ حکمت عملی دوبارہ سے اس وجہ سے شروع ہوئی کیونکہ عسکریت پسند تنظیمیں دوبارہ سے یہاں اپنا قدم جمانا چاہتی ہے۔


پشاور کے سینئر صحافی رفعت اللہ اورکزئی سمجھتے ہیں کہ اپریشن ضرب عضب کے بعد حکومت اور عسکری قیادت کی جانب سے علاقے میں امن و امان قائم ہونے کے اعلانات ہوئے اور کامیابی کے جشن منائے گئے مگر کچھ عرصے بعد ہی حقیقت سامنے آئی کہ حالات نارمل نہیں اور گزشتہ کئی عرصے سے مسلسل قبائلی مشران کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں مسائل بڑھ جائینگے اور یہ علاقے دوبارہ جنگ کا مرکز بنیں گے۔


انھوں نے مزید کہا کہ مسلسل اُن علاقوں میں جارہے ہیں اور پوری قبائلی پٹی میں قبائلی مشران کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے اور خصوصا شمالی اور جنوبی وزیرستان میں اُن قبائلی عمائدین کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے جو اثر رسوخ کے حامل ہے اور علاقے میں ان کی اہمیت ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ قبائلی اضلاع کے عمائدین کو مسلسل ٹارگٹ کیا جارہا ہے مگر نہ تو حکومت کی جانب سے اور نہ ہی عسکری قیادت کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے آیا کہ قبائلی اضلاع میں کیا پک رہا ہے؟


رفعت اللہ اورکزئی سمجھتے ہیں کہ فاٹا انضمام کے بعد جب سیکیورٹی کے امور پولیس کے حوالے کئے گئے تو ریاستی عملداری کمزور ہوتی گئی کیونکہ پولیس کے پاس جدید اسلحہ اور دیگر الات سمیت فورس کا فقدان ہے جن کی وجہ سے حالات دوبارہ کنٹرول سے باہر ہورہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ قبائلی اضلاع میں جن لوگوں کے پاس وسائل ہے وہ دوبارہ نقل مکانی پر مجبور ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں امن و امان کی صورتحال دوبارہ سے مخدوش ہے ۔


 

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔