اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے 16 جولائی 2020 کو جاری کردہ اعلامیے میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کو عالمی دہشتگرد قرار دے دیا ہے۔ سلامتی کونسل نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا کہ جون 2018 میں نور ولی محسود نے سابق ٹی ٹی پی لیڈر ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد اس تنظیم کی کمان سنبھالی تھی اور یہ تنظیم القاعدہ کے ساتھ تعلق کی بنیاد پر 29 جولائی 2011 کو دہشتگرد قرار دی جا چکی ہے۔ سلامتی کونسل نے مزید لکھا کہ نور ولی محسود کی سربراہی میں ٹی ٹی پی نے پاکستان میں متعدد دہشتگرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں جولائی 2019 میں شمالی وزیرستان میں پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملہ اور اگست 2019 میں خیبر پختونخوا میں پاکستانی دفاعی اداروں پر بم حملہ شامل ہیں۔
لیکن یہ نور ولی محسود ہے کون؟
پاک انسٹیٹوٹ فار پیس سٹڈیز کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے Terrorism Studies کے ماہر ڈاکٹر فرحان زاہد کے مقالے کے مطابق نور ولی محسود صرف ایک دہشتگرد کمانڈر ہی نہیں بلکہ ایک عالمِ دین اور متعدد کتابوں کا مصنف بھی ہے۔ یاد رہے کہ نور ولی محسود کا تعلق محسود قبیلے سے ہے اور 2013 میں حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد سے یہ ٹی ٹی پی کا پہلا کمانڈر ہے جو محسود قبیلے سے ہے۔ 2018 میں نیا دور سے بات کرتے ہوئے طالبان پر وسیع علم کے حامل صحافی رحیم اللہ یوسفزئی نے بھی اس طرف اشارہ کیا تھا کہ 2013 کے بعد قریب پانچ سال ملا فضل اللہ کی سربراہی میں ٹی ٹی پی کی کمان محسود قبیلے سے باہر رہی تھی جب کہ یہ تحریک دراصل محسود قبیلے ہی کی شروع کردہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ملا فضل اللہ کی ٹی ٹی پی سربراہی کے دوران یہ تنظیم آپسی گروہی لڑائیوں کا شکار رہی۔
نور ولی محسود کی پیدائش اور تعلیم
نور ولی محسود 1978 میں محسود قبیلے کی ایک شاخ ماچھی خیل ظفر خیل میں پیدا ہوا اور اس کا تعلق جنوبی وزیرستان کے علاقے ساراروغا سے ہے۔ اس نے دینی تعلیم پنجاب کے شہروں فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں حاصل کی۔ فیصل آباد میں یہ جامعہ امدادیہ، جامعہ حلیمیہ اور جامعہ فاروقِ اعظم سے پڑھا جب کہ گوجرانوالہ میں جامعہ نصرت العلوم سے تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں اس نے کراچی میں واقع جامعہ احسن العلوم اور جامعہ یٰس القرآن سے بھی تعلیم حاصل کی۔ 1999 میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے دو سال جنوبی وزیرستان میں واقع مدرسہ امداد العلوم میں پڑھایا بھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ افغان اور پاکستانی جہادی گروپس میں اس کو بطور ایک ملٹری کمانڈر اور بطور عالمِ دین احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ٹی ٹی پی میں سربراہ بننے سے پہلے نور ولی محسود کی حیثیت
ٹی ٹی پی کے پہلے سربراہ بیت اللہ محسود کے دور میں نور ولی بیت اللہ کا نائب رہا۔ وہ ایک طالبان عدالت کا قاضی بھی رہ چکا ہے اور کچھ عرصہ ٹی ٹی پی کے میڈیا ونگ کا منیجر بھی رہا ہے۔ 2013 سے 2015 کے درمیان یہ ٹی ٹی پی کراچی کا سربراہ بھی رہا جس کے بعد یہ ٹی ٹی پی کے محسود قبائل والے گروپ کے سربراہ خالد سعید سجناں کا نائب رہا اور فروری 2018 میں خالد سجناں کی ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی کے اس حصے کا سربراہ بن گیا جب کہ ملا فضل اللہ نے اسے ٹی ٹی پی کا نائب امیر بھی مقرر کر دیا۔ جون 2018 میں ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد یہ ٹی ٹی پی کا سربراہ بنا۔
ایک جنگجو عالمِ دین
نور ولی محسود نے 1990 کی دہائی میں طالبان کے ساتھ افغانستان میں جنگوں میں حصہ لیا اور خصوصاً مزارِ شریف اور جبل السراج پر قبضے کی لڑائیوں میں پیش پیش رہا۔ واپس آنے کے بعد اس نے اپنی دینی تعلیم جاری رکھی۔ 911 کے بعد یہ ایک بار پھر ملا معراج الدین کے قافلے کے ساتھ افغانستان میں امریکی قبضے کے خلاف جہاد کی غرض سے چلا گیا۔ 2003 میں اس نے ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی اور 2004 میں تنظیم کے خلاف پہلے پاکستانی فوجی آپریشن میں اس نے تنظیم کو لیڈ کیا۔
بینظیر بھٹو قتل کی تفصیلات سامنے لانے والی کتاب
نور ولی محسود نے 2017 میں 690 صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا انقلابِ محسود، جنوبی وزیرستان: فرنگی راج سے امریکی سامراج تک۔ یہ پہلی کتاب تھی جس نے 2007 میں بینظیر بھٹو کے قتل پر تفصیلی انداز میں روشنی ڈالی۔ اسی کتاب میں اس نے بینظیر بھٹو قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ بینظیر بھٹو امریکہ کے ساتھ ڈیل کر کے طاقت میں آ رہی تھی اور وہ مجاہدین کے خلاف امریکہ سے مل کر کارروائی کرنا چاہتی تھی۔ اس کتاب میں نور ولی محسود نے ٹی ٹی پی کے بننے کی وجوہات پر بھی تفصیلی بات چیت کی ہے اور یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ پاکستانی فوج کی مختلف کارروائیوں نے ٹی ٹی پی کی دہشتگرد کارروائیاں کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچایا۔
یہ وہ پہلی کتاب ہے جس میں ایک جہادی کمانڈر نے خود بینظیر بھٹو قتل کی نہ صرف ذمہ داری لی بلکہ اس کے پیچھے تمام ماسٹر مائنڈز اور کرداروں کی تفصیلات بھی بتائیں۔ ان میں مولوی عمران، احماس عرف نصراللہ، قاری اسماعیل، ملا احسان کے علاوہ دونوں خودکش بمباروں بلال عرف سعید اور اکرام اللہ پر بھی بات چیت کی گئی ہے۔
نور ولی محسود بطور کمانڈر کیا سوچ رکھتا ہے؟
نور ولی محسود کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ طالبان کے مختلف گروہوں اور دوسری جہادی تنظیموں کے درمیان اتحاد کی خواہش رکھتا ہے اور اس سلسلے میں اس کی کوششیں ماضی میں بار آور بھی ثابت ہوئی ہیں۔ 2009 میں بیت اللہ محسود اور القاعدہ کمانڈر حافظ سلطان کے درمیان اتحاد میں بھی نور ولی محسود کا کلیدی کردار تھا۔ نور ولی محسود کا ماننا ہے کہ 2015 اور 2016 میں ٹی ٹی پی کے مختلف گروہوں کے درمیان آپسی لڑائی کی وجہ سے اس تنظیم کو تنظیمی اعتبار سے شدید نقصان پہنچا اور اس کی پاکستانی فوج اور ملک کے اندر کارروائیاں کرنے کی صلاحیت میں خاصی کمی آئی۔ اس نے اپنی کتاب میں ٹی ٹی پی کی ملٹری حکمتِ عملی پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اس کے مطابق 2009 میں آپریشن راہِ نجات میں پاکستانی فوج کے خلاف ٹی ٹی پی کی کارروائیوں نے اس آپریشن کو بڑی حد تک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام بنایا۔ جن حکمتِ عملیوں کا وہ خاص طور پر ذکر کرتا ہے، ان میں IED، فوج کے قریبی ملک اور قبائلی سرداروں کا قتل، شہری علاقوں میں خودکش حملے، فوجی چھاؤنیوں اور ٹریننگ سنٹرز پر حملے، جیلیں توڑنا (جن میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل اور بنوں جیل کے واقعات شامل ہیں)، غیر سرکاری تنظیموں کے کارکنان کو ہدف بنانا اور مقامی اور غیر ملکی شہریوں کے اغوا برائے تاوان کی حکمتِ عملی نے ٹی ٹی پی کو اپنے اہداف حاصل کرنے میں خصوصی طور پر مدد دی۔
اس نے اپنی کتاب میں ٹی ٹی پی کی جانب سے کراچی کو خصوصی طور پر نشانہ بنائے جانے اور 2013 کے انتخابات سے قبل ایم کیو ایم اور اے این پی کی سیاسی ریلیوں اور جلسوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے بھی بات کی ہے۔
کیا نور ولی محسود محض ایک انتہا پسند مولوی ہے یا کچھ اور بھی؟
ڈاکٹر فرحان زاہد کے مطابق نور ولی محسود نہ صرف ایک مذہبی انتہا پسند ہے بلکہ اس کی تحاریر سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک متعصب پشتون بھی ہے۔ دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اس دہشتگرد کا ماننا ہے کہ پشتون قوم تو صحیح مسلمان ہے لیکن پنجابی اور سندھی ٹھیک مسلمان نہیں۔ یہ پاکستانی فوج کو پنجابی فوج کہتا ہے پنجابیوں کے خلاف اس کی زبان مزید سخت ہو جاتی ہے۔ تاہم، یہ دیگر اقوام مثلاً عرب، ازبک، چیچن اور اوئیغر جہادیوں کے بارے میں اچھے خیالات رکھتا ہے۔
تاہم، اس نے کچھ مقامات پر پنجابی دہشتگردوں کی تعریف بھی کی ہے اور خاص طور پر عثمان پنجابی کی بہادری کی داد دی ہے جس نے 2009 میں راولپنڈی میں واقع پاکستانی افواج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کیا تھا۔ عثمان پنجابی بنیادی طور پر لشکرِ جھنگوی کا ایک کمانڈر تھا جس نے بعد ازاں تحریکِ طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔