جب سکول میں پڑھتے تھے تب اکثر یہ بتایا جاتا تھا کہ اس ملک کو آزاد کروانے کے لئے بزرگوں نے بہت سی قربانیاں دی تھیں۔ اس وقت اس بات کو تسلیم بھی کیا جاتا تھا لیکن جب سے کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور انٹرنیٹ پر تاریخ دانوں کو سنا ہے تب سے پتا چلا ہے کہ وہ کون سی قربانیاں ہیں اور کون سے ڈاکومنٹ میں لکھا ہوا ہے کہ بزرگوں نے اس ملک کے لئے قربانیاں دی تھیں۔
قربانی تو جنگ میں دی جاتی ہے یا پھر وہاں دی جاتی ہے جہاں نا انصافی کی جائے۔ جہاں حق نہ ملے اور پھر اس کے لئے جدوجہد کی جائے۔ جب کوئی جدوجہد کرتے کرتے اپنی جان قربان کرتا ہے اور وہ چیز حاصل کر لیتا ہے تو اس کو کہتے ہیں قربانی۔ لیکن پاکستان کے لئے اس وقت نہ کوئی جنگ لڑی گئی، نہ کسی لیڈر نے قربانی دی، نہ کسی لیڈر کو قتل کیا گیا اور نہ کوئی جیل گیا۔ پھر کیسے تسلیم کیا جائے کہ اس ملک کو آزاد کروانے کے لئے قربانیاں دی گئی تھیں؟ ایک چیز جو بغیر کسی قربانی کے مل رہی تھی پھر اس کے لیے قربانی دینے کی کیا ضرورت تھی؟
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
کتاب 'فری ڈوم ایٹ مڈ نائٹ' میں واضح طور پر لکھا ہے کہ بے گناہ لوگوں کا قتل کیا گیا تھا جس میں ہندو، مسلمان اور سکھ شامل تھے۔ ایک اور کتاب ہے جس کے مصنف خشونت سنگھ ہیں۔ ان کی کتاب 'ٹرین ٹو پاکستان (لاہور ٹو امرتسر)' میں لکھا گیا ہے کہ لاشوں سے بھری ٹرین کو امرتسر پہنچایا گیا تھا اور ایسا منظر کسی نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جس کسی نے یہ منظر دیکھا وہ اسے کبھی بھول نہیں پایا۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کس طرح نوجوانوں کو غلط تاریخ پڑھائی جاتی ہے اور ان کے ذہنوں میں نفرت بھر دی جاتی ہے۔ قتل کو قربانی کا رنگ دیا جاتا ہے جو ایک مکمل جھوٹ ہے اور نوجوان اس بات کو تسلیم بھی کر لیتے ہیں لیکن جب ان کا حقیقت سے سامنا ہوتا ہے تو پھر خود پر افسوس کرتے ہیں کہ وقت برباد کیا۔
سکول اور کالج والے کبھی بھی حقیقت نہیں پڑھائیں گے۔ اس سے بہتر ہے وہ مضمون ہی سلیبس سے خارج کر دیا جائے جہاں حقیقی تاریخ کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ اسے پڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ جس طرح ہمارا وقت برباد کیا گیا اسی طرح آنے والی نسل کا وقت بھی برباد کیا جا رہا ہے اور مستقبل میں بھی کیا جاتا رہے گا۔ آخر میں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ ہمیں نفرت کا سبق پڑھایا اور خود دوستی کے نام پر مزے لوٹتے رہے۔