Get Alerts

آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا

مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ 3 اکتوبر کو 12 جولائی کا بدلہ لیا گیا۔ آرٹیکل 63 اے کے بنچ میں چار وہ ججز شامل تھے جنہوں نے 12 جولائی کو پی ٹی آئی کے حق میں ہونے والے فیصلہ کی مخالفت کی تھی۔ اس فیصلے کے ذریعے سپریم کورٹ کے پر کاٹ دیے جائیں گے۔

آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا

پاکستان میں آج تک مکمل طور جمہوری نظام قائم نہیں ہو سکا اور نا ہی ہمیں کبھی مکمل طور پر عوامی پارٹی اقتدار میں نظر آئی ہے۔ اگر کبھی سیاسی پارٹی نظر آئی بھی تو کولیشن حکومتوں کی شکل میں۔ مگر ان میں ہر وقت ایک ایسی پارٹی شامل ہوتی آئی ہے جو مرکزی ستون کے طور پر کام کرتی رہی ہے۔ جب ان کا جی چاہتا اپنے آپ کو سائیڈ پہ کر کے دھڑام سے حکومت گرا دیتی تھی۔ مگر آج کے فیصلے نے پارٹی سے بھی بات آگے پہنچا دی ہے۔ اب ارکان کا ذاتی فیصلہ ہو گا۔ کسی رکن کو وزارت کا لالچ تو کسی کو زر کا لالچ۔ کسی سے پیار سے ووٹ لیں گے اور کسی سے ڈرا دھمکا کے۔

مزید یہ کہ قاضی فائز عیسیٰ کے اس فیصلے میں کہی ہوئی کچھ اہم باتیں جن سے بنیادی انسانی حقوق کا تاثر ملتا ہے کہ ہر شخص آزاد ہے اور شخص کو آزادی ہے جیسے کہ انہوں نے مثال دے کر سمجھایا کہ ایک پارٹی سربراہ کا اختیار ایک جج استعمال کرے تو کیا یہ جمہوریت ہو گی؟ جج تو منتخب نہیں ہوتے۔ اگر پارٹی پالیسی کے خلاف کوئی ووٹ ڈالے اور اگر اعتراف کرے اور اس کے بعد وہ رکن معافی مانگے تو ممکن ہے پارٹی سربراہ اسے معاف کر دے۔ پھر ہم کیوں نہ کریں؟ مگر جب عوام کی آزادی رائے کی بات ہوتی ہے تو قومی سالمیت والا ڈھول پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔

آج ہم نے دیکھا کہ کس طرح عدالت نے حکمران طبقہ کے مفاد کے لئے آؤٹ ڈیٹ لیٹر پر سنوائی کی اور اس پر فیصلہ بھی سنا دیا جو کہ غیر آئینی ہے۔ اور اگر بینچ پر نظر ڈالیں تو اس بینچ میں پانچ میں سے چار وہ جج صاحبان موجود تھے جنہوں نے پہلے اس آرٹیکل پر منفی ردعمل دیا تھا۔ مزید اس پر سینیئر کورٹ رپورٹر مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ 3 اکتوبر کو 12 جولائی کا بدلہ لیا گیا۔ آرٹیکل 63 اے کے بنچ میں چار وہ ججز شامل تھے جنہوں نے 12 جولائی کو پی ٹی آئی کے حق میں ہونے والے فیصلہ کی مخالفت کی تھی۔ اس فیصلے کے ذریعے سپریم کورٹ کے پر کاٹ دیے جائیں گے۔

ہمیں یہ سب کچھ سمجھنے کے لئے پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالنی پڑے گی کہ جب بھی کوئی لنگڑی لولی جمہوری حکومت بنتی نظر آئی تو وہ کولیشن سے بنی۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعد بینظیر کی حکومت متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے اشتراک سے بنی۔ اور پھر متحدہ قومی موومنٹ چھوڑ کر چلی گئی۔ اور پھر مسلم لیگ ن اور اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت بنی۔ اور پھر دوبارہ پی پی پی نے مسلم لیگ (جونیجو) کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ اور جنرل مشرف نے متحدہ قومی موومنٹ اور جے یو آئی (ف) کے ساتھ حکومت بنائی۔ اور پھر پی پی پی، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی ف نے مل کر حکومت بنائی اور پھر پی ٹی آئی، بلوچستان عوامی پارٹی اور جی ڈی اے کی کولیشن حکومت بنی اور پھر پی ڈی ایم کی حکومت نظر آئی۔ اور اب دوبارہ پی پی، متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ ن کی حکومت بن کر ہمارے سامنے آئی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں ہر وقت کولیشن حکومتیں بنتی رہی ہیں۔ پہلے جمہوریت دشمن عناصر کو پوری پارٹی کو منانے کے لیے بہت طاقت کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ مگر اب لگتا ہے کہ اراکین اسمبلی کو اپنے ساتھ ملانا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔ اب ان کو گرانے اور بنانے میں کوئی دقت نہیں ہو گی۔ کسی پارٹی کو اپنے ساتھ ملانا اور پھر کسی شخص کو اپنے ساتھ شامل کرنا بالکل بھی مشکل نہیں ہو گا۔ اس کے لیے زر اور طاقت کا استعمال ہی کافی ہے۔

آرٹیکل 63 اے کے اس فیصلہ سے حکومت آئینی عدالت بنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ اب 12 جولائی کے فیصلے پر عمل کروانے میں آسانی ہو گی اور حکومت دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔ لگ ایسے رہا ہے کہ قاضی فائر عیسیٰ نے جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا ہے۔

عبدالغفار بگٹی کا تعلق بلوچستان میں ڈیرہ بگٹی سے ہے۔