آج کل سب سے زيادہ تذکرہ لفظ 'آئین' کا سننے کو مل رہا ہے۔ يہ اصطلاح ان دنوں زبان زد خاص و عام ہے۔ نجی محفل ہو يا سياسی مباحثہ؛ آئين کی پاس داری، آئين کا تقاضا، آئينی طريقہ کار، آئين کی تشريح، آئين کی پامالی جیسے موضوعات گفتگو کا مرکز بن چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس ملک ميں بسنے والوں کے لیے آئين کی بالادستی اہميت رکھتی ہے اور آئينی حقوق حقيقی معنوں ميں درکار ہيں۔
عوام کی کثير تعداد نے حاليہ آئين کے آرٹيکل 63-A کی عدالتی تشريح اور دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے معاملے کو آئين سے انحراف کرنے والے جانبدار اور سياسی رجحان رکھنے والے مخصوص ججوں کی فہرست ميں شامل کر ديا۔ اس وقت ہم آئينی، سياسی اور معاشی بحران کا شکار ہيں۔ اگر عدالتيں متنازعہ ہو جائيں گی تو آئين کيسے بچے گا، جمہوريت کيسے قائم رہے گی اور معيشت کيسے سنبھلے گی؟
آئين پاکستان 10 اپريل 2023 کو اپنی گولڈن جوبلی منا رہا ہے۔ حقيقی معنوں ميں ديکھا جائے تو اس کی مثال اس معذور شخص جيسی ہے جس کی عمر 50 برس ہو چکی ہے مگر اس کے جسم کو اپاہج بنا کر اس کی سپرٹ کو کمزور کر دیا گیا ہو۔ کئی سوال ذہن میں اٹھتے ہیں۔ اسے معذوری سے دوچار کرنے والوں نے ايسا کيوں کيا؟ آئين کا قصور کيا تھا؟ آئين کا اطلاق کن پر ہوتا ہے؟ آئين کی تشريح کرنے والے کون تھے؟ آئين پہ عمل پيرا ہونا کيا ہم سب پر فرض نہيں؟
1973 کا آئين جمہوری حکومت نے بنايا اور متفقہ حيثيت ميں پارليمنٹ سے منظور ہونے والا وہ مسودہ ہے جس کا اطلاق ہر خاص و عام، رياست و حکومت اور عوام سب پر يکساں ہے۔ آئين عوام اور رياست کے مابين طے پانے والا سماجی معاہدہ (Social Contract) ہے۔ اس کی حيثيت بنيادی اور سپريم دستاويز کی ہے جس کے تحت ملک چلتا ہے۔
پارليمان آئين بناتی ہے، جج آئين کی تشريح کرتے ہیں اور عدلیہ کا ادارہ آئین کے بقا کا ذمہ دار ہے۔ اس ميں تبديلی پارليمنٹ ميں متفقہ بحث کے نتيجے ميں وقوع پذير ہو سکتی ہے۔ آئين شکنی پر سزا واجب ہے، مگر اس کے باوجود عدالتيں آئين کو تحفظ دينے کے بجائے ہمیشہ آئين شکنی کرنے والوں کے سامنے سربسجود کيوں ہوتی رہيں؟
ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ہم آئين کی گولڈن جوبلی اس دھج سے مناتے کہ ملک میں جمہوريت ہچکولے نہ کھا رہی ہوتی، عدل ناپيد نہ ہوتا، ترازو ڈگمگا نہ رہا ہوتا۔ ايک جانب ضعيف، نادار، غريب انصاف کی طلب ميں سسکياں بھرتا بيچ چوراہے دم توڑ رہا ہے اور دوسری جانب منٹوں اور گھنٹوں ميں عدالتيں کھلتی اور آئين کی من پسند تشريح سے جانبدار فيصلوں کی سرکس بپا کر رہی ہیں۔
گولڈن جوبلی پر سنہرے حروف ميں لکھا جاتا کہ آئين کی بالادستی کی مثال آزادی رائے ميں ديکھو، مفت تعليم اور تحفظ کی فراہمی ميں ديکھو، قانون اور انصاف مہيا ہوتا ديکھو، برابر شہريت کے عملی نمونے محسوس کرو، مذہبی ہم آہنگی اور اقليتوں کی شراکت کا مثالی نمونہ ديکھو، خوف سے پاک اس سرزمين کو گھر سمجھنے والے 22 کروڑ عوام سے ملو۔ جہاں صوبائی خودمختاری ترقی کی ضمانت اور فيڈريشن مضبوطی کی علامت ہوتی۔ جہاں پارليمانی بالادستی کی گونج اس ملک کے کونے کونے ميں سنائی ديتی اور عوام طاقت کا سرچشمہ ہوتے۔ پھر يہ سوال برحق ہوتا کہ سياست دانوں نے اس ملک کو کيا ديا؟
مگر جب پاکستان میں آئين کی تاريخ کو پلٹ کر ديکھو تو سرِعام آئين کا قتلِ عام، آئين شکنی اور من پسند تشريح کے کئی واقعات ملتے ہيں۔ 1956 کا آئين دو برس ميں ايک آئين شکن کے ہاتھوں دم توڑ گيا، آمر کا راستہ اس ملک کی عدالتيں نہ روک سکيں۔ 1962 ميں ايک آمر صدر ايوب نے صدارتی آئين ديا جس کی بنياد پر اليکٹورل کالج بنايا گیا، وزيراعظم کے اختيارات ختم کر کے طاقت کا محور صدر کو بنا ديا گیا اور صدارتی نظام کا ناکام تجربہ کر دکھايا۔ عدالتيں اس مرتبہ بھی آئين شکنی کا راج تکتی رہ گئيں۔
آئين شکنی کی مثاليں 1958 کا مارشل لاء، 1962 کا آمرانہ آئين، 1970 ميں آمر يحيیٰ خان کا ليگل فريم ورک آرڈر، 1977 میں ضياء الحق کا مارشل لاء، آمر ضياء الحق کی آٹھويں آئینی ترميم، ضياء الحق کا پی سی او یعنی Provisional Constitutional Order، وزير اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل، 1999 میں مشرف کا مارشل لاء، مشرف دور کا پی سی او، مشرف نے آئين کو ردی کی ٹوکری کہہ کر مخاطب کيا، آمر مشرف کی 17 ويں ترميم، يہ تراميم مارشل لائی پارليمنٹ سے منظور ہوئيں اور عدالتوں نے ان کی توثيق کر کے سر تسليم خم کيا۔ اس ملک کی تاريخ بھری پڑی ہے آئين کی مخالفت اور آئين شکنی سے۔ ايسا کرنے والے کون تھے؟
مارشل لاء غير آئينی عمل ہے۔ جب بھی مارشل لاء لگتا ہے تو آئين منسوخ ہو جاتا ہے جس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ اس ملک ميں شہريوں کے بنيادی حقوق جو کہ آئين انہیں ديتا ہے وہ 34 برس تک براہ راست آمريت کی نذر ہو کر ايک شخص کی من مانی (arbitrariness) کے مرہون منت رہے جسے ہم 'آمر' کہتے ہيں۔
اس کی ايک مثال آمر ضياء الحق کی آٹھويں آئینی ترميم ہے جس کے تحت 102 آئينی تبديلياں کر کے آئين کا حليہ بگاڑ کر رکھ ديا گيا۔ دن دہاڑے آئينی قتل عام کا مسودہ قابل عمل بنايا گيا، اسے ڈريکونين آئين کہنا غلط نہ ہو گا۔ 270-A کے ذريعے مارشل لاء کی توثيق کی، ضياء کا صدارتی آرڈر من و عن adopt کر ليا۔ 58-2B کے تحت صدر کو اسمبلياں توڑنے اور منتخب وزيراعظم کو چلتا کرنے کا اختيار، 62-F قرارداد مقاصد (1949) کو آئين کا حصہ بنانا، آرٹیکل 62-63 صادق و امين جيسی مبہم شقيں آئين کا حصہ بنانا جيسے بے شمار کالے قانون آمريت کی ہی دين ہيں۔ صدارتی نظام کی واپسی، صدر گورنر appoint کرے گا، گورنر راج کو ليگل قرار ديا، فيڈرل شريعت کورٹ کا قيام؛ آئين کے منہ پر تيزاب پھينکنے کے مترادف ہے جس کا شکار ہميشہ سياست دان اور عوام رہے۔
افسوس کہ آئين کو پنپنے نہ دينے والی قوتيں ہميشہ سرگرم رہيں۔ پاکستان 1947 ميں معرض وجود ميں آيا، 1958 ميں آئين کی راہ ميں رکاوٹيں ڈالنے والی قوتيں غير آئينی طريقوں پہ چلنے والی مہارت کا بيج بو چکی تھيں۔ لہٰذا آئين شکنی ہميشہ سے چند افراد اور قوتوں کا طرہ امتياز بن چکی تھی۔
جو لوگ یہ سوال کرتے ہيں کہ جمہوری حکومتوں نے اس ملک ميں کيا کيا، ان کی ياد دہانی کے لیے يہ بتانا ضروری ہے کہ آئين بنانے والی جمہوری قوتيں ہی ہيں۔ 1970 ميں ملک میں پہلے عام انتخابات ہوئے، صرف اليکشن کروانے کے لیے 23 سال جمہوری قوتوں کو محاذ آرائی کرنی پڑی، آمريت کا مقابلہ کرنا پڑا، صدارتی نظام کے نقصانات سہنے پڑے، مشرقی پاکستان کو کھونا پڑا۔
1973 ميں ايک جمہوری ليڈر ذوالفقار علی بھٹو (سیاست دان) نے پارليمنٹ کے ذريعے اس ملک کو آئين ديا۔ 1997 ميں ايک جمہوری ليڈر نواز شريف (سياست دان) نے آمر کی آٹھويں ترميم کا خاتمہ کر کے آئين کے تيزاب زدہ چہرے پر تيرھويں ترميم کے ذريعے مرہم رکھا۔
2010 ميں جمہوری حکومت ميں پيپلز پارٹی نے اس ملک کو اٹھارويں ترميم اور NFC ايوارڈ کا تحفہ ديا جس پر آج بھی صدارتی نظام کی لو لیے پھرتی جمہوريت دشمن قوتيں کبھی سنگل نيشنل کریکولم اور کبھی دو صوبائی اليکشن الگ کرانے کا ايجنڈا لیے اپنے سياسی آلہ کاروں کے ذريعے حملہ آور ہوتی ہيں۔
سياست دانوں کو ہر وقت کوسنے والوں کو بلا مبالغہ اس بات کا اندازہ نہيں کہ آمريت اور جمہوريت ميں کيا فرق ہے، آئين شکنی اور آئين کی بالادستی کا فرق کيسے متاثر کرتا ہے، انہيں ادراک ہی نہيں کہ سياست اور رياست ميں کيا تعلق ہے، وہ بے خبر شوروغل ميں محو رہنا پسند کرتے ہيں۔ ہجوم کی شکل ميں طاقت کا مزہ ليتے ہيں۔ ان ميں زيادہ تر لاعلمی کا شکار ہوتے ہيں جبکہ انہيں ہوا دينے والے، آرگنائز اور مينیج کرنے والے عناصر بخوبی واقف ہوتے ہيں کہ وہ لاعلم ہجوم کو اپنے ذاتی یا سياسی مقاصد کے لیے کيسے استعمال کر رہے ہيں۔
نظريہ ضرورت (law of necessity) آئين شکنی کی ايک اور ايسی شکل ہے جس کا آغاز 1953 ميں ہو گيا۔ اس سے فائدہ آمر نے اٹھايا اور اسے ہميشہ عدليہ کی پشت پناہی حاصل رہی۔ ہميں نظريہ ضرورت جيسے ڈھکوسلوں سے باہر آنا ہو گا۔ يہ 22 کروڑ جان دار انسانوں کا ملک ہے نہ کہ چند جانبدار گروہوں کا۔ نواز شريف کے تاريخی الفاظ 'ہميں اپنے گھر کو درست کرنا ہو گا' حقيقی معنوں ميں اس ملک کی کنجی ہیں۔ بہرحال يہ کہنے والے کو سچ بولنے کی قيمت چکانی پڑی۔
آمرانہ رويوں کی پيداوار arbitrariness ہمارے ملکی نظام کا بدترين الميہ بن چکی ہے جو جزا اور سزا کا تعين کرنے والی ناقابل تسخير قوت بن چکی ہے۔ ہميں آگے بڑھنے کے لیے اس روش کو بھی ترک کرنا ہو گا۔
حاليہ پارليمنٹ کا عدالتی بل 2023 قابل ستائش ہے مگر پارليمنٹ کو مستقل بنيادوں پر فعال کردار نبھانا ہو گا۔ پارليمنٹ کو خود يہ باور کروانا ہو گا کہ اس کا آئينی دائرہ کار کتنی اہميت کا حامل ہے۔
گورننس ہو يا سياست، فيصلے پارليمنٹ ميں ہونے چاہئيں۔ ملک کی تقدير عوامی نمائندوں کو سونپی گئی امانت ہے۔ آئين کے ساتھ کھلواڑ سب کو لے ڈوبے گا۔ آخری حل آئين اور قانون کی بالادستی اور سویلين بالادستی ميں ہی پنہاں ہے۔ جتنا بھی زور لگا کر اس ميں تاخير کريں گے، بد سے بدترين حالات کا شکار ہوتے جائيں گے۔ آؤ کہ آئين کی گولڈن جوبلی پر آئين کو اس کے فطری سنہری جامے ميں اپنا ليں۔ آئين کا اپاہج پن مٹا کر 22 کروڑ عوام کو محتاجی سے نجات دلائيں۔