ایک وقت تھا جب 1970 کی دہائی میں آزمائے جانے والے سیاسی حربوں، سول ملٹری کشیدگی اور جنگی معاملات پاکستان میں زور شور سے جاری تھے۔ پھر 1990 کی دہائی کی سیاست دیکھنے کو ملی جب پاکستان کی سیاسی روایات کو اس گندگی کی نہج پر پہنچا دیا گیا کہ معاشرے میں جس نگاہ سے چور، ڈکیت، قاتل اور جسم فروش طبقے کو دیکھا جاتا تھا، اسی نظر سے سیاست کو دیکھا جانے لگا۔ پھر مشرف کا مارشل لاء آیا جس کے بعد ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ بہت ہو گئی مخالفت، اب مفاہمت کر لینی چاہیے۔ ملک کا فائدہ اور اپنا فائدہ مشترکہ بنا لیا جائے مگر مقتدرہ کو شاید یہ منظور نہ تھا کیونکہ صدر کے اسمبلیاں توڑنے کے اختیار 58 ٹو بی کے ختم ہونے کے بعد اگر سیاسی جماعتیں بھی آپس میں ایکا کر لیں، پارلیمنٹ مضبوط ہو جائے تو بہت سی غیر سیاسی اور غیر جمہوری قوتوں کیلئے یہ نامنظور صورت حال تھی لہٰذا پروجیکٹ نیازی چن لیا گیا۔ وہ نیازی صاحب جو اس وقت فوج کو مجرم اور نواز شریف کو ملک کا خیر خواہ سمجھتے تھے۔ وہ نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران پاکستان میں رہ کر ان کی تعریفوں کے پل باندھتے تھے۔ یوں یکایک نیازی صاحب سٹیٹس کو کے خلاف ایک مجاہد بن گئے۔ میڈیا کو بھی خصوصی ہدایات پہنچا دی گئیں کہ پروجیکٹ نیازی کی پروجیکشن میں کمی نہیں آنی چاہیے۔
تمام صورت حال کے بعد بالآخر عمران احمد خان نیازی جو اب توشہ خانہ، سائفر اور عدت میں نکاح کیسز میں مجرم قراد دیے جا چکے ہیں، انہیں وزیر اعظم بنا کر ملک پر مسلط کر دیا گیا۔
بطور وزیر اعظم عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے پیج سے اپنا پیج ایسا جوڑا کہ سول ملٹری دو الگ الگ الفاظ کے بجائے لفظ واحد کی تاثیر کے ساتھ ملک میں رائج ہوئے۔ آرمی چیف کو قوم کا باپ، جنرل باجوہ کو سب سے جمہوری جنرل کا لقب دینے سے لے کر وزیر اعظم کا فون ٹیپ کرنے کی اجازت تک دے دی گئی۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ افراد جو فوج کی سیاست میں مداخلت کے مخالف تھے، ان کے خلاف غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے۔ ففتھ جنریشن وار فیئر کے نام سے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرتے ہوئے لبرل، سیکولر اور روشن خیال طبقے کو امریکی پیڈ ایجنٹس سے لے کر پاکستان کے نظریات کا مخالف ہونے تک کے سرٹیفیکیٹ دیے جاتے رہے۔ خواتین کے خلاف بیان بازی کرنا عام شیوا بن گیا۔ چاہے وہ موٹروے کیس ہو جہاں کہا گیا کہ اکیلی عورت رات کو گھر سے نکلی ہی کیوں، چاہے خواتین کے کپڑوں پر طعن و تشنیع ہو کہ مرد کوئی روبوٹ تو نہیں، لڑکیاں اگر جینز پہنیں گی تو لڑکے تو متاثر ہوں گے ہی۔
ریاست مدینہ کے بلند و بانگ دعوے ہوں یا خلافتی نظام رائج کرنے کی خواہش یا پھر مذہبی افراد یا دائیں بازو کی سوچ کے حامل گروہ کی حمایت حاصل کرنا ہو، سب کچھ بڑھ چڑھ کر کیا گیا۔ مخالفین کے خلاف کی جانے والی انتقامی کارروائیوں کی لسٹ بہت لمبی ہے جس کے لیے پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ رانا ثناء اللہ کا جعلی کیس ہو، خواجہ برادران پر الزامات ہوں یا پھر احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، فریال تالپور، مریم نواز، شہباز شریف، آصف زرداری اور خورشید شاہ سمیت تمام کو جیلوں میں ڈالا جانا ہو۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
دوسری جانب اقتدار کے سنگھاسن سے ہٹائے جانے والے نواز شریف صاحب اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن کر ابھرے جہاں انہوں نے 'مجھے کیوں نکالا؟' کا نعرہ لگا کر اور جنرل باجوہ کا نام لے کر گوجرانوالا میں اپنے انقلابی ہونے کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد ان کے خلاف بھی بھارت نواز اور ملک مخالف ہونے کی مہم شروع ہوئی۔ تب نواز لیگ کو لبرل، سیکولر طبقہ بہت پسند تھا۔ تب نواز لیگ کو اسد طور، مطیع اللہ جان، طلعت حسین، حامد میر اور اس طرح کی اپروچ رکھنے والے لوگ بہت پسند تھے۔ پھر وقت دوبارہ بدلا تو اعتقاد و ایمان بھی بدل گیا۔ موجودہ حالات میں نواز لیگ ایک بار پھر دائیں بازو کی جانب مائل ہے جہاں ان کو اب وہ تمام صحافی برے لگ رہے ہیں جو ماضی میں ان کے لحاظ سے ان کے حق میں بات کرتے تھے۔ حالانکہ وہ تب بھی آئین و قانون کی بات کرتے تھے اور اب بھی یہی کرتے ہیں لیکن تب وہ تحریک انصاف کو برے لگتے تھے مگر آج انہیں پسند ہیں۔
تب تحریک انصاف صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتی تھی، ایکٹیوسٹس کو پیکا لاء کے تحت اٹھایا جاتا تھا، ٹی وی پر پابندیاں لگائی جاتی تھیں جبکہ اب وہی تحریک انصاف ان تمام صحافیوں کو آزادی صحافت کا علمبردار مانتی ہے۔ دوسری جانب وہی ن لیگ اب اسٹیبلشمنٹ کی باقاعدہ بی ٹیم بنی ہوئی ہے جو آج بلوچ مظاہرین سے لے کر اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی رول پر اعتراض کرنے والوں کو ملک مخالف قرار دے رہی ہے۔ تحریک انصاف جو ماضی میں لبرل اور روشن خیال طبقے کو غدار اور ایجنٹ کہتی تھی، آج بشریٰ بی بی کے کیس کے بعد ان کی جانب دیکھ رہی ہے اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کی گردان سنا رہی ہے۔
تحریک انصاف والے بھول گئے ہیں کہ وہ ریاست مدینہ کے سب سے بڑے داعی تھے۔ اب جبکہ نام نہاد اسلامی شرعی فیصلہ آیا ہے تو اس پر اتنا واویلا کیوں مچایا جا رہا ہے؟ جب آپ خواتین کی جینز سے لے کر ان کے بنیادی حقوق کے خلاف بیان دیتے تھے، جب آپ مریم نواز کو مخاطب کر کے کہتے تھے کہ میرا نام ایسے نہ لو تمہارا میاں برا مان جائے گا، تب آپ کو کیوں یاد نہ آیا کہ عورت عزت کے قابل ہے؟ اس لیے کہ وہ آپ کی عورتیں نہیں تھیں؟ ہمارے معاشرے نے تو بہت پہلے سکھایا تھا کہ مائیں بہنیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں لیکن آپ کہتے تھے نہیں، ہماری عزت والی جبکہ تمہاری پیڈ ایجنٹس اور اسلام مخالف ہیں۔
ہم تب بھی مظلومین کے ساتھ تھے اور آپ کی حرکات پر تنقید کرتے تھے۔ آج آپ کے ساتھ وہی سب ہو رہا ہے تو اب آپ کے حق میں بات کرتے ہیں۔ جو بھی مظلوم ہو گا، ہم اس کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔ مگر میں اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام ٹھہراتے ٹھہراتے تھک گیا ہوں، قصور صرف ان کا نہیں ہے۔ جب آپ اپنے مخالف کو مزہ چکھانے کیلئے خود ان کی جھولی میں جا کر بیٹھتے ہیں، تب انہیں آپ قوم کا باپ قرار دیتے ہیں۔ بعد میں جب وہ آپ کو منہ لگانا بند کر دیتے ہیں تو آپ ان پر طعنے کسنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سب میں عوامی رائے کہاں ہے؟ کیا آپ عوام سے پوچھ کر اسٹیبلشمنٹ کی گود میں جا بیٹھتے ہیں؟ کیا آپ عوام سے پوچھ کر ان سے لڑائی مول لیتے ہیں؟ وردی والوں اور ملک پر مسلط آپ جیسے سیاست دانوں پر مشتمل اشرافیہ کی آپسی لڑائی میں ہمیں کیوں بار بار گھسیٹ لیا جاتا ہے؟
عوام کو بھی سمجھنا ہو گا کہ سیاست دانوں کے پاس یہ آسان طریقہ ہے کہ سارا الزام فوج پر ڈال کر خود بری الزمہ ہو جاتے ہیں جبکہ پارلیمنٹ کو کمزور کرنے والے اور جمہوریت کے اصل قاتل یہ خود ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کو دعوت دے کر بلاتے ہیں، ان کے کندھوں پر بیٹھ کر ایوان میں آتے ہیں اور بعد میں جب اقتدار سے نکال دیے جاتے ہیں تو ان ہی کے مخالف بن کر عوام کو پھر سے بے وقوف بناتے ہیں۔