گذشتہ ہفتے نیا دور کی ویب سائٹ پر جاوید چودھری کے کالم، جو روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہوا تھا، کو سنا جس کو نیا دور کے ٹیم نے محنت کرکے صوتی ویڈیو میں منتقل کیا تھا۔ اس کے مندرجات سے قطع نظر جو پہلا خیال ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ نیا دور کی ایڈیٹوریل ٹیم کو اس کالم میں ایسا کیا ملا جس سے متاثر ہوکر، اتنی محنت کرکے اس کی ویڈیو بنائی؟
تھوڑی سے توقف کے بعد سوچا کہ متبادل آواز کے اصول کے تحت یہ اچھا اقدام تھا اور دوسرا یہ کہ میں تو بصورت دیگر اس سے محرم رہتا۔ کیونکہ گذشتہ تقریباً تین چار سالوں سے نہ میں پاکستانی نام نہاد مین سٹریم الیکٹرانک میڈیا دیکھتا اور سنتا ہوں، نہ ہی اخبارات پڑھتا ہوں۔ کیونکہ اس کی حدود وقیود کا پتہ لگ چکا ہے کہ اس پر کیا اور کتنا بول اور لکھا جا سکتا ہے۔ لہذا مجھے فائدہ یہ ہوا کہ اب میں اس کی بنیاد پر یہ لکھ رہا ہوں۔
اس ملک میں رائج محدودات کے تناظر میں چودھری صاحب ایسا اور اتنا ہی لکھ سکتے تھے۔ دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ ہماری ذہن سازی میں بھی اس نظام کا بڑا حصہ ہے، بعد میں خواہ ہم جتنی بھی کوشش کریں، علم اور سیکھنے کے متبادل ذرائع، سیاسی وسماجی گروہوں تک رسائی حاصل کریں لیکن بچپن سے بنایا گیا ذہن، بتائے اور سکھائے سچ کو جھٹلا کر پوری طرح اس سے آزادی اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بناتا ہے۔ اس لئے تو کہا جا رہا ہے کہ کچھ نیا سیکھنے سے سیکھے ہوئے دماغ سے نکالنا بہت مشکل ہے۔ لہذا اس تناظر میں ہمارا سچ بھی نسبتاً یا موضوعاتی ہوتا ہے لیکن معروضی اور اٹل نہیں۔
اگر دیکھا جائے تو جناب چودھری صاحب نے اپنے مضمون میں امریکہ سے لے کر جنگ عظیم دوم تک تباہ حال یورپ، جاپان، چین، سنگاپور، ملائیشیا اور بھارت تک، )پتہ نہیں وہ جنوبی کوریا اور بنگلا دیش کیوں بھولے( کئی ممالک کی ترقی کی مثالیں دیں اور شکوہ یا طعنہ دیا کہ آخر وہ بھی تو ہمارے جیسے انسان ہیں، اگر انہوں نے انتہائی نامساعد حالات کا مقابلہ کیا اور تاریخ کا رخ موڑ دیا تو ہم نے کیوں نہیں کیا؟
عرض ہے کہ پاکستان چونکہ اسلامی نظریاتی ریاست ہے تو یہاں قرآن کا حوالہ دینا بے جا نہیں ہوگا: وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۔ ترجمہ: 'اور یہ کہ انسان کیلئے وہی ہوگا جس کی اس نے کوشش کی'۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اصل میں ملک کیلئے 200 قابل افراد کافی ہوتے ہیں اور وہی ملک چلاتے ہیں۔ میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہاں نہ صلاحیت کی کمی ہے اور نہ وسائل کی بلکہ اصل مسلہ ترجیحات کا ہے۔ آج ہم جن حالات میں ہیں اس کے لئے ہمارے چند سو انسانوں نے بہت کوشش اور محنت کی اور ان کی جو ترجیحات تھیں، اس کو حاصل کرنے میں توقع سے زیادہ کامیابی ملی۔
جناب چودھری صاحب جن ممالک کی آپ نے مثالیں دی ہیں وہاں کے ان چند سو لوگوں یا قائدین نے انسانوں کی فلاح وبہبود کیلئے ریاست بنائی اور اسے سنوارا۔ اپنے عوام کیلئے جنگیں اور امن معاہدے کئے۔ ہمارے کیس میں ریاست کی بجائے قلعہ اور لیبارٹری وجود میں لائی گئی جہاں تختہ مشق یہاں رہنے والے بدقسمت عوام ٹھہرے۔ لہذا جس مقصد کیلئے یہ ریاست معروض وجود میں لائی گئی اس میں ہم 110 فیصد کامیاب ہیں۔
قلعہ کا نام سن کر بے اختیار ذہن میں عسکری ادارہ ہی آتا ہے جہاں کا نظام جمہوری نہیں بلکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول کے تحت چلتا ہے اور مقتدر کمانڈر ہی ہوتا ہے۔ اگر کوئی سیویلینز وہاں رہتے ہیں تو ان کے حیثیت محض کیمپ فالورز کی ہوتی ہے نہ کے فیصلہ ساز کی۔
دیکھیے، 74 سالوں سے ہم اس نظام کو کتنے تسلسل اور کامیابی کی ساتھ چلا رہے ہیں کہ کوئی پھنے خان اس کی ایک اینٹ تک بدلنے کی جرات نہیں کر سکا۔ آج تک ہم ہر عمل اور ہر شعبہ اس قلعہ ماڈل کے تحفظ کے اصولوں کے مطابق تشکیل دے رہے ہیں۔ ہمارا نصب العین ایک بڑی، مضبوط اور طاقتور فوج کو بنانا تھا تو بنا کر دکھایا۔ کیا اس کی دنیا میں کہیں اور مثال ہے کہ کسی بھی ملک نے اپنے وسائل اور جی ڈی پی کے تناسب سے کئی گنا بڑی فوج بنائی ہو؟
دنیا میں وہ کون سا ترقی پذیر ملک ہے جس کی تقریباً چالیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے ہو۔ کروڑوں کے حساب سے بچے سکول سے باہر ہوں۔ عوام کی اکثریت کو ہسپتالوں میں نہ علاج میسر ہو اور نہ دوا۔ ایک ایسا ملک جو سوئی تک نہیں بنا سکتا تھا لیکن ایٹمی پروگرام شروع کیا اور اس کو تکمیل تک پہنچایا ہو؟ ہاں وہ اور بات ہے کہ ایٹم بم بنانے کے بعد اس کی حفاظت کے لالے پڑگئے اور اس کی حفاظت کیلئے ایک نیا سٹریٹیجک کور بنانا پڑا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جس طرح اس ملک کی سلامتی کو ہر وقت مبینہ خطرات لاحق تھے اور ہیں، عین اس طرح اس کے ایٹمی اثاثے ہر وقت خطرے میں ہوتے ہیں۔ اس لئے ایٹم بم بنانے کے بعد بھی ہم فوج اور روایاتی ہتھیاروں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ چونکہ ہم نے یہ ریاست نظریاتی قلعہ کے طور پر بنائی ہے تو اس کو نظریاتی اور عسکری دونوں اعتبار سے محفوظ بنانا ضروری تھا اور اس کا بہت شاندار اور کامیاب بندوبست کیا گیا۔ نظریاتی پختگی کیلئے ہم نے ایسا نظام تعلیم وضع کیا جہاں اسلامیات تو بطور لازمی مضمون پڑھائی جاتی ہے لیکن اس کے علاوہ کیسمٹری سے لے کر فزکس جبکہ بیالوجی اور ریاضی میں بھی اسلامیات کو پڑھایا جاتا ہے۔ اس لئے ہماری انجینئرنگ یونیورسٹیاں بھی حافظ سعید پیدا کرتی ہیں۔
جو رہی سہی کسر رہ جاتی ہے وہ مطالعہ پاکستان پورا کرتا ہے۔ یہ واحد مضمون ہے جس کے ذریعے ہم نے انسانوں کی بنائی ہوئی ریاست جو ایک سیاسی جغرافیائی مظہر ہے کو ایک آسمانی اور مذہبی نظریاتی معجزہ ثابت کیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی قوم کو ذہن نشین کیا کہ ساری دنیا اس معجزہ کو تلپٹ کرنے کے درپے ہے لہذا اس کی حفاظت کیلئے ہمیں ہر شعبہ ہائے زندگی میں انواع واقسام کے مجاہد پیدا کرنا ہیں اور ہم اس میں کامیاب ہوئے۔
اگر یقین نہیں آتا تو کسی بھی سکول، کالج، یونیورسٹی یا مدرسہ میں جائیں، وہاں آپ کو بنیادی ذہنیت ایک ہی ملے گی۔ اس لئے تو یہاں مارشل لا لگنے پر لوگ مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔ اکثریت کو ٹریفک اصول اور اس کے اشاروں کے سُدھ بُدھ کا پتہ نہ ہو لیکن اس زیرک اور تیز و طرار قوم کو فوری طور پر ایک موبائل کمپنی کا کیو آر کوڈ، جو ایک سائنسی عمل ہے میں توہین مذہب کا عنصر نظر آ سکتا ہے اور منٹوں میں ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں۔
کل اگر آسمان پر بادلوں نے کچھ ایسی گستاخی کی اور اس طرح شکل شبیہ بنائی اور جس پر مجاہد ملت کو توہین مذہب کا شبہ گزرا ، پھر آپ دیکھیں گے یہ آسمان اور بادلوں کا کیا حشر کرتے ہیں۔
جن ممالک کا ذکر چودھری صاحب نے کیا ہے وہاں کی یونیورسٹیاں اپنے طلبہ کے علاوہ باقی دنیا سے بہترین دماغ اپنی طرف کھینچتی ہیں اور پھر تحصیل علم کے بعد ان کو ملازمت کیساتھ شہریت، مراعات اور آسائشیں دے کر ان کی صلاحیتوں اور مہارتوں سے اپنے ملک اور قوم کیلئے استفادہ اٹھاتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں ہم چونکہ نظریاتی اور مجاہد ملت ہیں اور اس قلعے سے دنیا پر ملت اسلامیہ کے جھنڈے گاڑنے ہیں، کیونکہ نظریہ کی تو کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ اس لئے ہم نے حافظ سعید سے لے کر صوفی محمد، فضل اللہ، خادم حسین جیسے جید مجاہدین ناصرف خود پیدا کئے بلکہ دنیا بھر سے چن چن کر اس قبیل کے مجاہدین کو مہمان بنایا۔ اس کے علاوہ دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں جو پاکستانی گئے ہیں، خواہ انہوں نے ہاورڈ یا آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی ہو یا مزدوری کیلئے گئے، وہ بفضل خدا مطالعہ پاکستان کے فیض کی بدولت وہاں پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔
ہمارے عوام کے دماغ میں تو یہ عقیدہ راسخ کیا گیا ہے کہ اصل زندگی موت کے بعد ہے اور یہ نظریہ اسلام کی بنیاد پر بنی ریاست ہمارے لئے موت کے بعد اصل زندگی میں کامیابی یقینی بنانے کیلئے وجود میں لایا گیا ہے۔ لہذا اس کیلئے ہر قسم قربانی بغیر کسی دنیاوی صلہ کے فرضی عین ہے۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ عربوں سمیت جو بھی اس دنیا میں ترقی کی بات کرتا ہے وہ مرتد ہے۔
مزید براں ہمارا یہ بھی عقیدہ بنایا گیا ہے کہ اس نظریاتی ریاست کی بقا کی ضمانت صرف ایک محکمہ اور اس کے تصدیق شدہ سول افسر یا بیوروکریٹس ہیں، باقی 22 کروڑ جاہل، اجڈ اور پژمردہ لاشیں ہیں۔ اس لئے ہم اپنے قومی بجٹ کا 80 سے 83 فیصد دفاع اور ریاستی انتظامیہ پر خرچ کرتے ہیں۔ تو جناب اس میں تو صرف سی ایم ایچ اور ڈی ایچ ایز ہی بہترین بن سکتے ہیں۔
آپ نے یہ تجویز دی ہے کہ یا تو ملک 25 سال کیلئے فوج کے حوالے کریں اگر ٹھیک نہیں کیا تو پھر واپس لیں ان سے۔ تو جناب یہ 70ء سے یہ قلعہ کس کے حوالے ہے؟ اس عرصے میں یا وہ خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوتے ہیں یا جب تھک جاتے ہیں تو وقتی طور پر چارج کسی کیمپ فالور کو دے دیتے ہیں۔
اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہونا چاہتے ہیں تو سردست اس قلعے کو 22 کروڑ عوام کے گھر میں بدلنا ہوگا جس کا چارج کمانڈر کے پاس نہیں بلکہ گھر کے بزرگوں کے ہاتھ میں ہو۔ مطالعہ پاکستان کو تبدیل کرکے جائزہ پاکستان ہو۔ اور یہ سب کچھ ڈی کنسٹرکشن اور پھر سے ری کنسٹرکشن کے بغیر ممکن نہیں ہے۔