جب سے خاکسار نے ہوش سنبھالا ہے، تب سے سن رہا ہوں کہ وطن عزیز بہت نازک حالات سے گذر رہا ہے۔ لیکن، میں یہ کہوں گا کہ وقت جاری میں وطن عزیز کو نہ صرف نازک بلکہ دلچسپ حالات کا سامنا ہے۔ آپ کا یہ سوال یقیناً بجا ہے کہ نازک و دلچسپ حالات کیسے؟
نازک ایسے کہ خطے کی صورتحال نے یکایک اور بے ہنگم طریقے سے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ پورے خطے میں غیریقینی کی صورتحال ہے، اور ہم اس میں فریق تو نہیں، لیکن حالات، واقعات، ہمسائیگی، کچھ عوامل کی ہمدردی اور جغرافیائی حیثیت فراقت سے کم کا بھی تقاضا نہیں کرتے۔ اور دلچسپ کچھ اس طرح کہ ایک کہاوت سن رکھی ہے "بندر کے ہاتھ میں استرا"، وطن عزیز میں 2018 سے ایک ایسی حکومت قائم ہے کہ جو ہر وقت جنگل میں منگل کا سا سماں باندھے ہوئے ہے، گویہ بندر کے ہاتھ لگ گیا استرا۔ ہر چیز کو متنازع بنانا، بنی ہوئی کو بگاڑنا، بگڑی ہوئی کو مزید بگاڑنا اس حکومت کی خاص مہارت میں شمار کیا جاتا ہے۔
ان دنوں ملک میں ایک نئے میڈیا اتھارٹی بل کا چرچہ زبان زدعام ہے۔ اس مجوزہ اتھارٹی کو پاکستان میڈیا ڈولپمینٹ اتھارٹی کا نام دیا گیا ہے، اس مجوزہ اتھارٹی کا ایک مسودہ کافی وقت سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ آئیے سب سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ میڈیا ڈولپمنٹ اتھارٹی کیا ہے اور اس کا کام کیا ہوگا؟
ایک حکومتی تجویز کے مطابق ، پی ایم ڈی اے کو ایک ریگولیٹری باڈی کے طور پر تصور کیا گیا ہے جو ہر قسم کے میڈیا اور ان کے صارفین کی پیشہ ورانہ اور کاروباری ضروریات کو پورا کر سکتی ہے اور اس کا مقصد موجودہ 'بگڑے ہوئے' میڈیا ریگولیشن کو متعدد باڈیز کے ذریعے تبدیل کرنا ہے۔
تجویز کے مطابق ، پی ایم ڈی اے ملک میں پرنٹ ، براڈ کاسٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کے ریگولیشن کی ذمہ دار ہوگی۔
یہ ایک نیا قانونی ادارہ ہوگا جو پاکستان میں میٹا ڈیٹا ، ڈیجیٹل ، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر مبنی مواد اور اشتہارات کے دور میں فلموں ، الیکٹرانک ، پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔
اتھارٹی کے قیام کے لیے تیار کردہ آرڈیننس کے تحت ، میڈیا ریگولیشن ، براہ راست یا بالواسطہ کنٹرول سے متعلق تمام سابقہ قوانین کو ختم کر دیا جائے گا اور پی ایم ڈی اے اور اس کے افعال کو قانونی احاطہ دیتے ہوئے نئی قانون سازی کی جائے گی۔
یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ پی ایم ڈی اے کو ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم رجسٹر کرنے ، ان کی نگرانی اور تجزیہ کرنے اور سائبر قوانین کے نفاذ کو یقینی بنانے کا اختیار دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اگر اتھارٹی قائم ہوئی تو مستقبل میں ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم قائم کرنے کے لیے پی ایم ڈی اے سے لائسنس لینا پڑے گا۔ اس صورت میں ، ڈیجیٹل میڈیا کو حکومت کی طرف سے مزید سخت ضابطے اور کنٹرول دیکھنے کا بھی امکان ہے۔
میڈیا ڈولپمنٹ اتھارٹی براڈکاسٹ اور پرنٹ میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا بھی ذمہ دار ہوگا۔ یہ فلم پروڈکشن اور نمائش کے لیے این او سی جاری کرے گا ، لائسنس جاری کرے گا اور براڈکاسٹ میڈیا کی نگرانی کرے گا ، اور پرنٹ میڈیا اداروں کو رجسٹر کرنے کی ذمہ داری بھی اسی کے سپرد ہوگی۔ یہ اتھارٹی میڈیا ملازمین کی اجرت کا تعین بھی کرے گی اور اجرت کے تنازعات کو حل کرے گی۔
تجویز کے مطابق وفاقی حکومت تمام بڑے شہروں میں میڈیا شکایات کونسلز قائم کرے گی تاکہ میڈیا پلیٹ فارمز پر شائع یا نشر ہونے والے مواد اور میڈیا ورکرز کو اجرت کی عدم ادائیگی سے متعلق شکایات موصول ، جانچ پڑتال ، تحقیقات اور جائزہ لیا جائے۔ ان کونسلوں کو اختیار ہوگا کہ وہ ان افراد کو طلب کریں جن کے خلاف شکایات درج ہیں اور ان سے وضاحت طلب کی جائے۔
اگر کوئی شخص کونسل یا اتھارٹی کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے اپیل دائر کرنا چاہے گا تو وہ اتھارٹی کے تحت کام کرنے والے ٹربیونل سے رجوع کر سکے گا۔ تجویز میں کہا گیا ہے کہ پی ایم ڈی اے آرڈیننس کے تحت کئے گئے کچھ بھی یا کسی فیصلے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھانے کا اختیار کسی اور ادارے کے پاس نہیں ہے۔
اس کے علاوہ نئی عدالتوں کے ججوں کی سربراہی میں ان ٹربیونلز کو دفعات کی خلاف ورزی کرنے پر مواد تیار کرنے والوں کو تین سال تک قید اور 25 ملین روپے جرمانے کی سزائیں دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔
حکومت کی مجوزہ پاکستان میڈیا ڈولپمینٹ اتھارٹی سخت تنقید کے زد میں ہے۔ صحافیوں کی مختلف تنظیمیں اس مجوزہ اتھارٹی کو رد کرچکی ہیں۔ اس مجوزہ اتھارٹی کے سوشل میڈیا پر زیر گردش مسودہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت میڈیا کو اپنے مکمل حصار میں جکڑ لینا چاہتی ہے۔
وطن عزیز میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں شروع دن سے جاری ہیں۔ اس حوالے سے میں آپ کے سامنے چند ایک واقعات گوش گزار کرنا چاہوں گا۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی گیارہ ستمبر کی تقریر جس میں انہوں نے نئی ریاست کے بنیادی اصول واضح کئے تھے، اس تاریخ ساز تقریر کے بھی مخصوص حصے کو ریڈیو اور اخبارات کو شایع/نشر نہ کرنے کے نامعلوم ذرائع سے احکامات جاری کئے گئے۔ اس وقت کے ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین (جو کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے) نے اس حکم پر اعتراض اٹھایا اور انہوں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ یہ احکامات کہاں سے جاری ہوئے اور قائد اعظم کی تقریر کا کون سا مخصوص حصہ نشر ہونا پسند نہیں کررہے۔ لیکن، یہ نامعلوم ذرائع کبھی معلوم نا ہوسکے۔ اور یہ تھے طرح عزیز میں صحافت اور میڈیا کے اولین دن۔
جب پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا ، سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ جاری تھی اور جس چینل کو استعمال کیا جا رہا تھا وہ میڈیا تھا۔ پوری دنیا دو بلاکس یعنی کمیونسٹ بلاک اور امریکی بلاک میں تقسیم تھی۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اسے بھی دونوں بلاکس میں سے ایک بلاک کا انتخاب کرنے کی سوجی، چنانچہ قوم کے رہنماؤں نے امریکی بلاک کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد ان اخبارات ، رسائل اور صحافیوں کے خلاف متعدد اقدامات کیے گئے جو کمیونسٹ مکتبہ فکر کی طرف زیادہ مائل تھے۔
پروگریسو پیپرز لمیٹڈ (پی پی ایل) ایک اہم تنظیم تھی جسے ہندوستان کی ایک کمیونسٹ پارٹی کے سابق رکن میاں افتخار الدین نے تشکیل دیا تھا ، جب قائداعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمان صحافیوں سے کہا کہ وہ مختلف جگہوں سے اخبارات شائع کریں۔ مسلم لیگ کا پیغام پھیلائیں اور تحریک پاکستان کی حمایت کریں۔ پی پی ایل میں دانشور زیادہ تر وہ تھے جنہوں نے ترقی پسند مصنفین تحریک (1936) میں حصہ لیا اور یہ پاکستان کی تاریخ کی واحد تنظیم ہے جس نے اتنی بڑی تعداد میں انعام یافتہ اور دانشوروں کو اس کی چھت کے نیچے جمع کیا۔
امریکن بلاک میں شامل ہونے کے بعد پہلے اخبارات اور اشاعتیں جنہیں حکومت نے نشانہ بنایا وہ پی پی ایل کی اشاعتیں تھیں۔ 1953 میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 1947-53 کے درمیان حکومت نے تقریباً 58 رسائل اور کتابوں پر پابندی لگا دی اور مارکیٹ سے ہٹا دیا۔ ایوب کے دور میں نیشنل پریس ٹرسٹ کا قیام عمل جس کے پاس ساری اخبارات و رسائل مقید کرلئے گئے، اور پھر سب اخبارات کو سرکاری طور پر ایک اداریہ جاری کیا گیا جس میں حکم دیا گیا کہ یہ اداریہ اخبارات میں شائع کیا جائے۔ اس اداریہ میں لوگوں کو یہ مطلع کیا گیا کہ صحافت انتہائی روشن و خوبصورت دور میں داخل ہوچکی ہے۔ اور پھر اس وقت کے تمام اخبارات نے ایک ہی دن یہ اداریہ شائع بھی کیا، لیکن فیض احمد فیض نے یہ اداریہ مزاحمت کے طور پر پاکستان ٹائمز میں ایک دن کی تاخیر سے شائع کیا لیکن بحرحال وہ اداریہ شائع کرنا پڑا۔ پھر جنرل ضیاء کے دور کی تو کیا ہی بات کرنی، جنرل صاحب کے دور میں اٹھارہ رسائل و اخبارات بند کردئے گئے اور تقریباً 150 صحافیوں کو جیلوں میں ڈال کر مختلف سزائیں دلوائیں گئیں۔
مجموعی طور پر وطن عزیز میں تقریباً ہر آمر اور جمہوری حکمران نے میڈیا کو پابند سلاسل اور صحافیوں کی قلم و آواز کو دبانے کی بھرپور کوشش کی۔ میڈیا کو ہر دور میں اعلانیہ یا غیراعلانیہ طور پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن، صحافت نے ہر دور میں کسی نہ کسی طریقے سے بات کرنے کا رستہ نکال ہی لیا۔
پاکستان تحریک انصاف حکومت کی مجوزہ میڈیا اتھارٹی سے متعلق صحافی تنظیموں نے اس بل کو ڈریکونین قانون سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بل کے ذریعے حکومت آئین میں دیے گئے آزادیٔ اظہار رائے کے حق کو دبانا چاہتی ہے۔ صحافتی تنظیموں کا یہ گلہ ہے کہ یہ قانون ملک کے آئین میں دیے گئے آزادیٔ اظہار کے اصول پر تباہ کن اثرات مرتب کرے گا۔
صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)، انسانی حقوق کمیشن پاکستان اور پاکستان بار کونسل کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بل اس ذہنیت کا عکاس ہے جو لوگوں کو آزادیٔ اظہار دینے اور انہیں اطلاعات تک رسائی کا مخالف ہے۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس قسم کی اتھارٹی کے قیام کے ذریعے حکومت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی طرح اب سوشل میڈیا، ڈرامے اور فلمز پر بھی سخت قسم کی سنسر شپ لانا چاہتی ہے۔ مشترکہ بیان کے مطابق بل کے تحت ٹی وی، ریڈیو اور ویب سائٹس کے لیے پانچ سے 15 برس کے لائسنس اور این او سی کے سالانہ اجرا کی تجویز کا مقصد نئے میڈیا اداروں کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔
صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پہلے سے موجود میڈیا اداروں کو بھی اس اتھارٹی کے ذریعے بیورو کریسی، سیاستدانوں اور اشرافیہ کے دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس عمل سے میڈیا پروفیشنلزم کے بجائے صرف اپنی بقا کی جنگ لڑتا رہے گا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ بل کے ذریعے میڈیا پر غیر اعلانیہ مارشل لا نافذ کیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان آج جس مقام پر فائز ہیں وہاں تک پہچانے میں میڈیا کا قلیدی کردار ہے جس کا وہ خود معترف ہے۔ لیکن، جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں تب سے صحافیوں پر حملوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی "پریڈیٹرز آف پریس فریڈم" یعنی آزادی صحافت کے دشمنوں کی فہرست میں بھی عمران خان کا نام شامل کیا گیا۔
حکومت کو چاہئے بجائے صحافت اور میڈیا کو مزید قید کرنے کے ایسے اقدام لیں، جس سے ملک کا، ملک کی عوام کا بھلا ہو، ملک کی عوام کے حالات بہتر ہوں، گرین پاسپورٹ پوری دنیا میں بے توقیری کا شکار ہے، ایسے اقدامات لئے جائیں جس سے پاکستان کو دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ میڈیا کا کام وزیراعظم کے اردگرد لوگوں کی طرح سارا دن جگت بازی کرنا، جی حضوری اور تعریفیں کرنا نہیں۔
میڈیا کا کام خبر دینا ہے، خبر جو حکومت وقت کو پسند ہو چاہے نا ہو۔