زندگی کرونا سے پہلے اور کرونا کے بعد

زندگی کرونا سے پہلے اور کرونا کے بعد
دنیا کا سب سے طاقتور ملک امریکہ آج بے بس ہے۔ ہر وہ طاقتور شخص جس کو کرونا کا وائرس لگ چکا ہے اپنی ساری دولت کے عوض بھی کچھ نہیں کر سکتا سوائے دعا کے۔ جن کو ابھی تک اس وبا نے نہیں چھوا وہ بھی کچھ نہیں کر سکتے سوائے گھر بیٹھنے کے۔ ہزاروں شادیاں عارضی طور پر منسوخ ہو چکی ہیں۔ ہزاروں لاکھوں کاروباری معاہدے التوا میں پڑ گئے ہیں۔ وہ تمام ترقی جو انسان نے پچھلے پانچ سو سالوں میں کی ہے وہ یک دم رک گئی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان ایک چھوٹے سے وائرس کا علاج نہیں نکال پا رہے۔ قیمتی سے قیمتی چیز کی اب کوئی قیمت باقی نہیں رہی۔

دنیا کی سب سی قیمتی چیز کی قیمت واپس اب آسمانوں کی چھو رہی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ سب سے قیمتی چیز کیا ہے جس کی کرونا سے پہلے کوئی قیمت نہیں تھی؟ زندگی میں سب سے اہم چیز زندگی خود ہے جس کو ہم تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ کرونا وائرس نے ہماری مصنوعی طرز زندگی کو ننگا کر کے ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ ہم پیسے کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کرتے۔ ہم رشتے تک اس بنیاد پہ جوڑتے اور توڑتے ہیں۔ ہم یہی سوچتے رہتے ہیں کو ہم کتنے کما رہے ہیں، کہیں دوسرا ہم سے آگے تو نہیں نکل گیا۔ ہم نئی گاڑی لے کے رشتہ داروں کو یہ باور کراتے ہیں کہ دیکھو اب میں مالدار ہو گیا ہوں۔ اور ایک آج کا دن ہے کہ ایک وائرس کی وجہ سے ہمیں جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔

عام طور پہ ہم اپنی دنیا میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ کسی سے صحیح انداز سے ملتے تک نہیں اور آج ملنا چاہ رہے ہیں لیکن مل نہیں سکتے۔ جس دن پہلی مرتبہ یہ خبر سننے میں آئی کہ چین میں ایک وائرس نے جنم لیا ہے جس سے لاکھوں لوگوں کی اموات کا خطرہ ہے تو پوری دنیا گھوڑے بیچ کے سو رہی تھی۔ آپ جانتے ہیں کیوں؟ قوم پرستی کی وجہ سے جس کو ہم انگریزی میں nationalism کہتے ہیں۔ قوم پرستی بظاہر تو وطن سے محبت کا نام ہے مگر اس کا ایک اہم جزو اپنے علاوہ تمام قوموں سے نفرت ہے۔ اگر آپ اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں لیکن دوسروں سے نفرت نہیں کرتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ آپ غدار ہیں۔

دوسری جنگ عظیم سے پہلے عوام الناس حکمرانوں پہ جان چھڑکا کرتی تھی جیسے کہ ہٹلر، سٹالین اور نیپولین کے نام مشہور ہیں۔ ان کے ایک حکم پہ سپاہی اور عوام دونوں اپنا آپ نچھاور کر دیتے تھے یا ان سے خدا سے بھی زیادہ ڈرتے تھے۔ اب اس احترام پہ ریاست نے قبضہ کر لیا ہے۔ اب ریاست پرستی اور قوم پرستی میں جکڑی دنیا ایک نا نظر آنے والے دشمن کے آگے بے بس ہے۔ اگر دنیا نے کرونا کو اپنی مسئلہ سمجھا ہوتا یعنی دنیا کو فکر لاحق ہو جاتی کہ دنیا میں انسان مر رہے ہیں چاہے وہ جس ملک سے بھی ہوں اور دنیا اس معاملے میں دلچسپی لیتی اور چین کے شانہ بشانہ کھڑی ہوجاتی تو آج امریکہ میں دو لاکھ لوگوں کو کرونا نہ ہوتا۔ اٹلی اور برطانیہ میں روزانہ کے حساب سے سینکڑوں لوگ نہ مر رہے ہوتے۔

حقیقت میں کیا ہوا؟

دنیا کے ہر ملک نے کہا کہ چین جانے اور اس کا مسئلہ جانے۔ خصوصاً وہ ممالک جو چین کے کاروباری حریف ہیں خوشی سے پھولے نہ سمائے جب ان کو معلوم پڑا کی چین کی معیشت ایک دن میں آسمان سے زمین پہ آن پڑی ہے۔ ان ممالک میں سرِفہرست امریکہ ہے۔ انسان بھی بڑی عجیب شہ ہے۔ روز اپنی آنکھوں سے قدرت کے کرشمے دیکھتا ہے لیکن قدرت کو مانتا نہیں ہے۔ دیکھتا ہے کہ سورج طلوع ہو رہا ہے، بارش ہو رہی ہے، رات میں بھی چاندنی ہے مگر پھر بھی انسان مانتا نہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گاہے بگاہے کرونا وائرس کا مذاق اڑاتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ فکر نہ کریں ہم امریکیوں کو کرونا کچھ نہیں کہے گا، سب کنٹرول میں ہے۔ اور ایک آج کا دن ہے کہ روزانہ کے حساب سے سینکڑوں لوگوں کے مرنے کی خبریں آ رہی ہیں۔ کئی مولوی حضرات اپنی تقاریر میں یہ کہتے پائے جا رہے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ہمیں کرونا سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ یعنی ہم ایسے حالات میں بھی اپنے آپ کو رب تعالیٰ کا فیورٹ سمجھتے ہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ ان حالات میں بھی وزیراعظم پاکستان شخصیت پرستی سے نہیں نکل پا رہے۔ وہ پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے بات بات پہ الجھ جاتے ہیں۔ جب ایک عالم دین ٹی وی پہ بیٹھ کے کسی ایک سیاستدان کے حق میں دعا کرے اور لوگوں کو باور کرانے کی کوشش کرے کہ تو مطلب یہ بنتا ہے کہ باقی سب بے ایمان ہیں۔ کون نیک ہے اور کون نہیں یہ طے کرنا مولانا طارق جمیل صاحب کا کام نہیں ہے، یہ رب تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔

نیک انسان کو ضرورت نہیں پڑتی کہ اس کے حق میں کوئی اثرورسوخ رکھنے والا شخص بیان دے۔ بلکہ نیک انسان تمام ایسے لوگوں کو مشہوری سے منع کرے گے۔ تبھی تو کہتے ہیں کہ نیکی کر دریا میں ڈال۔ حکومت کے سربراہ کے لئے دو لازمی شرطیں ہیں اور باقی سب ثانوی۔ وہ لازمی شرطیں ہیں اہلیت اور حکمت۔ اگر یہ دونوں خوبیاں نہیں ہیں تو باقی سب بے معنی ہیں۔

اس امید کے ساتھ کہ ہم ایک دن اس وبا پہ قابو پالیں گے ہمیں ہماری زندگیوں میں کیا کچھ بدلنا چاہیے؟ شاید سب کچھ ۔

ہم عام حالات میں ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے؟

دنیا کے ممالک عام حالات میں تماشا دیکھتے ہیں اور انسانیت کی تذلیل کرتے ہیں۔ ہمیں بدلنا ہو گا وگرنہ ہم ختم ہو جائیں گے۔ دنیا میں کم از کم آدھی آبادی پستی کی زندگی گزارتی ہے۔ نظام بنایا ہی ایسے گیا ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں رہے۔ لیکن کیا آج یہ دولت، دولت مند کے کسی کام کے بھی ہے؟ سوائے اس کے کہ لاک ڈاؤن کے دوران گھر میں مزے مزے کے کھانے کھانے کے۔ میں اکثر اپنے تجزیوں میں کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات میں جان کی بازی ہارنے والے بہن بھائیوں کا ذکر کرتا ہوں اور بار بار کہتا ہوں کہ خدارا ان کو اپنا سمجھیں اور پوری قوت لگا کر وہاں دہشت گردی ختم کریں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ایک دن یہی دہشتگرد اسلام آباد اور مری میں دندناتے پھریں گے۔ یہی خود غرضی ایک دن سب کچھ ختم کر دے گی۔ پنجاب میں رہنے والے لوگوں کو ان پٹھانوں سے کوئی غرض نہیں ہے جو 2000 کے بعد سے سینکڑوں دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہوئے۔ اسی طرح پٹھان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ پنجاب میں سینکڑوں لوگ امام بارگاہوں اور درباروں میں دہشتگردی کی نظر ہو گئے۔

کشمیر کے لئے بھی ہمارے پاس چند ملی نغمے، چند قسموں اور وعدوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہم 72 سال میں کشمیریوں کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکے۔ دنیا کو بھی پرواہ نہیں ہے۔ یہ جھوٹ موٹ کے پیار سے نا ہی قومیں بنتی ہیں اور نا ہی انسانیت سنورتی ہے۔ میرا کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ واقعی میں پرواہ کرنے میں اور جھوٹ موٹ کی پرواہ کرنے میں فرق ہے۔ جھوٹ موٹ کی پرواہ تو دکاندار بھی کرتا ہے جب وہ آپ سے پیسے لیتے وقت ایک بڑی مسکراہٹ کے ساتھ کہتا ہے کہ رہنے دیجیے نا پیسے۔ کبھی تجربہ کر کے دیکھ لیں، اس وقت پیسے نہ دیں وہی دکاندار اپنے نوکر کو فوراً آپ کے پیچھے بھیجے گا کہ پیسے لے کے آؤ۔

یہ زندگی انتہائی مختصر ہے۔ جب ہم کسی جنازے پہ جاتے ہیں صرف تب ہی چند لمحوں کے لیے ہمیں موت کا یقین آتا ہے۔ جس طرح ہم گھر آئے مہمان کی اس لئے قدر کرتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تھوڑے وقت کے لئے آئے ہیں محض اسی طرح ہم بھی مہمان ہیں۔ یہ کائنات ہماری میزبان ہے جس کو ہم نے قوم پرستی کی آڑ میں بم بندوقیں بنا بنا کر ختم کر رہے ہیں۔ گھر آئے مہمانوں کی طرح ہم میں بھی شاید کچھ لوگ زیادہ دن گزاریں کچھ کم۔ لیکن ایک دن تو یہ قیام اختتام پذیر ہونا ہے۔ اس قیام کو اب کے بعد سے ہم نے کیسا بنانا ہے یہ ہم سب پہ منحصر ہے۔