'ججز کے خطوط والی شرارت پی ٹی آئی یا اس کے ہمدرد کر رہے ہیں'

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جیسے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے خط لکھا تو ان کو مشکوک خطوط ملنے شروع ہو گئے حالانکہ ایجنسیز ایسا کیوں کریں گی؟ یہ بات تو ان کے خلاف جائے گی۔ یہ زیادہ مشکل کام نہیں ہے، ایجنسیاں اگر محنت کریں تو ان لوگوں تک پہنچا جا سکتا ہے جو اس معاملے کے پیچھے ہیں۔

'ججز کے خطوط والی شرارت پی ٹی آئی یا اس کے ہمدرد کر رہے ہیں'

ججز کے خطوط کا سامنے آنا شرارت لگتی ہے اور یہ شرارت پی ٹی آئی یا اس کے ہمدرد کر رہے ہیں۔ خفیہ ایجنسیاں اگر محنت کریں تو ان تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ شرارت صرف انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بدنام کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ یہ کہنا ہے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما رانا ثناء اللہ کا۔

آج ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ یہ باتیں وہی لوگ کر رہے ہیں جو اس پروپیگنڈا کے پیچھے ہیں۔ یہ شرارت اگر پی ٹی آئی خود نہیں کر رہی تو اس کے کوئی ہمدرد کر رہے ہیں۔ کوئی چھوٹی تنظیم بھی ہو سکتی ہے جو ایسے ہی مقاصد کے حصول کے لیے بنائی گئی ہو۔ یہ شرارت صرف انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بدنام کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایجنسیاں ہی سب کچھ کرتی ہیں، ججز کو دھمکاتی اور پریشان کرتی ہیں اور درست فیصلے نہیں ہونے دیتیں۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جیسے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے خط لکھا تو ان کو مشکوک خطوط ملنے شروع ہو گئے حالانکہ ایجنسیز ایسا کیوں کریں گی؟ یہ بات تو ان کے خلاف جائے گی۔ یہ زیادہ مشکل کام نہیں ہے، ایجنسیاں اگر محنت کریں تو ان لوگوں تک پہنچا جا سکتا ہے جو اس معاملے کے پیچھے ہیں۔

محسن نقوی کے وزیر اعظم بننے سے متعلق انہوں نے کہا کہ جو نگران وزیر اعلیٰ پنجاب، سینیٹر اور کرکٹ بورڈ کا چئیرمین بن سکتا ہے تو وزیر اعظم کیوں نہیں بن سکتا۔ محسن نقوی وزیر اعلیٰ بننا چاہتے تھے، یہ ان کی خواہش تھی اور وہ وزیر اعلیٰ بن گئے۔ محسن نقوی جو چاہیں بن سکتے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو صدر بھی بن سکتے ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ میں اپنی قیادت سے ناراض نہیں ہوں، میں اگر فیصل آباد میں موجود ہوتا تو نواز شریف اور مریم نواز کا کھلے دل سے استقبال کرتا اور ایک بار نہیں 10 بار کرتا۔ میں فکرمند ہوں کہ یہ حکومت مسلم لیگ ن کی نہیں ہے کیونکہ الیکشن میں ن لیگ کو اکثریت نہیں ملی۔ پیپلز پارٹی حکومت سے باہر نہیں ہے بلکہ اپنا حصہ لے کر بیٹھی ہے۔ ملک میں مخلوط حکومت قائم ہے اور مخلوط حکومت میں ذمہ داری سب جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا میں اپنی جماعت کے ساتھ ہوں اور میری جماعت مجھے جو بنانا چاہے گی میں بن جاؤں گا۔ میں پارٹی سے باہر نہیں ہوں، پارٹی میں ہوں اور پارٹی ڈسپلین میں رہ کر کام کر رہا ہوں۔ ضمنی الیکشن میں جس کا حق ہے اسے ملنا چاہیے، میں ضمنی الیکشن میں حصہ نہیں لے رہا۔ کیا یہ ضروری ہے کہ آپ نے ہر وقت حکومت میں ہی رہنا ہے؟

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ سیاسی کارکن کا کام اپنی رائے دینا اور بات کرنا ہے۔ ہم سب نواز شریف کی قیادت میں متحد ہیں۔ حکومت میں غیر منتخب لوگوں کو نہیں ہونا چاہیے۔ نواز شریف جو فیصلہ کریں گے، چاہے مجھے ٹھیک لگے یا غلط لیکن وہ مجھے قبول ہو گا۔ شہباز شریف میں مدت پوری کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ سب کو آن بورڈ لے کر چلتے ہیں۔ شہباز شریف کو ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے 2 سال اور تمام سیاسی جماعتوں کا تعاون چاہیے۔

انہوں نے کہا عمران خان کا توشہ خانہ کیس 100 فیصد درست ہے، عمران خان پر جن چیزوں کے الزام ہیں انہوں نے وہ تمام جرم کیے ہیں لیکن عدالت کے ٹرائل میں خامیاں اور پروسیجرل غلطیاں موجود ہیں۔ عمران خان پچھلے 10 سال سے پاکستان میں عدم استحکام کی سیاست کر رہے ہیں جس کا نقصان پاکستان کو ہوا ہے۔ عمران خان کو سیاسی برادری کے ساتھ بیٹھنا چاہیے مگر وہ آج بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ میں اسٹیبلشمنٹ کے سوا کسی کے ساتھ بات نہیں کروں گا۔