مذاق خارجہ: 'چنتخب حکومت سے اور کیا امید ہو'

مذاق خارجہ: 'چنتخب حکومت سے اور کیا امید ہو'
خارجہ پالیسی کسی بھی ملک کی خودمختاری کی مظہر ہوتی ہے اور حکومتیں اس وزارت کے لئے اپنے قابل ترین لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں جو کہ اندرونی حالات کا ادراک رکھتے ہوئے بین القوامی طور پراپنے مفادات کا تحفظ و ترویج کر ے۔ یہ تو خیر ایک ایسی ریاست کی بات ہے جہاں کی مثالیں اکژ ہمارے ملک کے یوٹرن پر فخر کرنے والے سربراہ دیتے ہیں اور باقی تمام معاملات کی طرح ہی جب انکے رہنما اصول آپ انکی مانگی تانگی حکومت پر لگائیں تو آپکو مندرجہ بالا عنوان بلا مشکل سمجھ آجائیگا۔

حکومت کے آغاز میں تو وزیر خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا گیا اور جرمنی جاپان کی سرحد سے لے کر ایران میں بیٹھ کر ایران پر الزامات تک جیسے عظیم زبان کی پھلسنوں کے بعد یہ عہدہ انھوں نے ایک اور کہنہ مشق اپنے کے حوالے کروادیا۔ معیار انکا کسی بھی معاملے میں آپ اپنے وزیراعظم کی سلیکشن سے جانچ سکتے ہیں تو اس بار بھی وزارت خارجہ کے قلمدان کے حامل محترم نے عہدہ سنبھالتے ہیں کہ آپکے ایک دیرینہ ادھار دینے والے ملک کے ساتھ پواڑا ڈلوا دیاجسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ادھار واپس کرنا پڑا اور پھر لگانے والوں کوخود جاکر معافیاں بھی مانگنی پڑیں۔ اور صرف یہی نہیں،اس حکومت کے چنتخب سربراہ جو ایک بڑھک مار کے آئے تھے ایک نیا ہی اتحاد بنانے کی، جب اتحاد کو عملی جامہ پہنچانے کا وقت آیا تب اگلوں نے پاجامہ کھینچ کر بیٹھا دیا۔ یہ توکچھ معاملات تھے پرانے اب ہم چند دن پہلے کی بات کرلیتے ہیں۔

ایک غیرملکی نیوز چینل کو انٹرویو میں جناب عہدہ خارجہ کے اس علمبردار سے اسامہ بن لادن کے بارے میں سوا ل کیا گیا کہ کیا آپ اسکو دہشت گرد سمجھتے ہیں یا شہید؟یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس سوال ہونے کی وجہ الحمدللہ اس حکومت کے سربراہ کا اسامہ کوپارلیمان سے خطاب میں شہید کہنا بنا تھا، خیر سوال کے جواب میں جناب نے کوئی 30 سیکنڈ کسی پرانی بی کلاس فلم کے اداکار کی طرح منہ بنائے رکھا اور پھر اسی منہ سے جواب ہی دے دیاکہ میں اسکا جواب نہیں دینا چاہتا۔ اب اس کے بعد پرانے نئے وزیر اطلاعات جتنا مرضی اسکو زبان کی پھسلن کہیں، ماسوائے ماروائے۔۔۔

خیر مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ جواب دیکر بھی جناب محترم پوچھتے پھر رہے ہیں کہ ہمیں گرے لسٹ سے کیوں نہیں نکالا؟ تعجب تو نہیں کیونکہ ان لائے گئے ہووں سے کوئی چیز بھی بعد قیاس نہیں جیسے کہ بجٹ اجلاس میں اپوزیشن کی ایک ہی جماعت کی سربراہ اپنی تقریر کرکے جا رہے تھے توعہدہ خارجہ کے علمبردار نے باقاعدہ آوازیں دے دے کر انکو واپس بلایا اور پھر جو ان کے ساتھ اس نوجوان رہنما نے کرڈالی، اسکی تپش رات گئے تک ٹویٹر تک پر اتارتے رہے بابا جی۔

اب کل ایک بیان پڑھا انتخاب کرنے والوں کی جانب سے کہ مل کر چلنا ہے جی جسکی وجہ بین الاقوامی صف بندیاں بنی ہیں اصل میں تو ان سے جان کی امان پاکر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو جسکا کام ہے اگر اسے کرنے دیں تو شاید یہ خارجہ پالیسی کی قلابازیاں کبھی ایک کیمپ سے دوسرے تو پھر دوسرے سے پہلے،نہ لگتیں اور ہماری وزارت خارجہ کو مذاق خارجہ بننے سے بچ جاتیں۔یہ ایک جمہوری حکومت کی پالیسی تھی کہ آپ سجنا دور دیا کو چھوڑ کر ایک قریبی جو آپ کا تو مخالف کبھی تھا ہی نہیں ، کیمپ میں کامیابی سے داخل ہوئے، باعزت طور پر لیکن آپ کے بغض اورخودغرضی نے اس معاملے کو بڑھنے سے روک دیا۔ سو اب بھی درخواست ہے کہ جو اصل سیاستدان ہیں ان سے خدا واسطے کا بیر چھوڑ کر ملک کا بیڑا انکے ہاتھ عزت سے سونپ کر اپنے کام سے کام رکھ لیں اور اگر نہیں تو آپ کے پچھلے کا اختتام کو آپکا مستقبل بننے سے کوئی روک پائے گا نہیں!