از عمر قریشی
پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار سنبھالے ابھی صرف چند ہفتے ہی ہوئے ہیں لیکن اس مختصر سی مدت میں تحریک انصاف نے پاکستانی سیاسی تاریخ کے 'تاریخ ساز' فیصلے کیے ہیں۔ ان 'تاریخی فیصلوں' کی فہرست پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔
وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیوں کی فروخت
وزیراعظم ہاؤس کی مجموعی طور پر 102 گاڑیاں نیلامی کے لئے پیش کی گئی تھیں جن میں سے 61 گاڑیاں فروخت ہوئیں جبکہ باقی فروخت نہ ہو پانے والی گاڑیوں کا کیا بنا یہ کسی کے علم میں نہیں ہے۔ حکومت کا خیال تھا کہ ان گاڑیوں کی فروخت (جن میں چار بلٹ پروف لیموزین بھی شامل تھیں اور جن کی مالیت کا تخمینہ ایک ارب کے لگ بھگ لگایا گیا تھا) سے سرکاری خزانے کو دو ارب روپے مل جائیں گے. ان گاڑیوں کی نیلامی کے لئے دیے جانے والے اشتہارات اور سوشل میڈیا پر تشہیر کے لئے بنائے جانے والے ان گاڑیوں کے وڈیو کلپس پر کتنی رقم خرچ ہوئی اس سے بھی کوئی واقف نہیں؟ بہرحال حکومتی توقعات کے برعکس گاڑیوں کی نیلامی سے محض 20 کروڑ روپے اکٹھے کیے جا سکے جو کہ تحریک انصاف کے لگائے گئے تخمینے کا دس فیصد بنتے ہیں۔ تحریک انصاف نے وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیاں نیلام کرنے کا فیصلہ اپنے سپوٹرز کے اذہان میں یہ تصور پروان چڑھانے کے لئے کیا تھا کہ حسب وعدہ تحریک انصاف سادگی سے امور حکومت چلاتے ہوئے غیر ضروری اخراجات سے چھٹکارا حاصل کر رہی ہے۔ اسے تحریک انصاف کی جانب سے اپنے ووٹرز کو خوش کرنے کے لئے ایک سیاسی سٹنٹ کہا جا سکتا ہے کیونکہ حقیقت میں تحریک انصاف کے وزرا اور مرکزی رہنما نہ صرف وی آئی پی پروٹوکول سے مستفید ہو رہے ہیں بلکہ ان کے لمبے چوڑے پروٹوکول کے قافلوں کے باعث سڑکیں بھی پرانے پاکستان کی مانند بند کروائی جاتی ہیں۔
بھینسوں کہ نیلامی
وزیراعظم ہاؤس میں رکھی گئی آٹھ بھینسوں کو 23 لاکھ روپے میں فروخت کیا گیا۔ بھینسوں کی نیلامی سے چند دن قبل تحریک انصاف کے ایک سینیٹر جو وزیراعظم عمران خان کے کافی قریب سمجھے جاتے ہیں رپورٹرز کو کیمروں سمیت اس جگہ لے گئے جہاں بھینسیں رکھی ہوئی تھیں اور ایک مضحکہ خیز بیان جاری کر دیا کہ بھینسیں بیحد خوش ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اب وہ آزاد ہونے جا رہی ہیں۔ فہم سے بالاتر ہے کہ اس طرح کی سیاسی شعبدہ بازی یا بھینسوں کو بیچ کر کیا حاصل کرنے کی توقع کی جا رہی تھی؟ کیا بھینسوں کی فروخت سے حاصل ہونے والے 23 لاکھ روپے کی رقم سے پاکستان پر موجود قرضوں کا حجم کم ہو جائے گا یا ڈیم فنڈ میں انہیں جمع کروا دیا جائے گا یا اس رقم سے تجارتی خسارہ کم ہو جائے گا؟ بھینسوں کی نیلامی کے لئے دیے گئے اشتہارات اور سوشل میڈیا مارکیٹنگ پر آنے والی لاگت بھی عوام سے چھپائی گئی ہے۔
گیس بم
گیس کی قیمتوں میں 43 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ وہ لوگ جو کہ گیس کا استعمال زیادہ کرتے ہیں ان کے لئے یہ اضافہ 186 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قدر اہم مسئلے پر ٹی وی چینلز پر کسی قسم کے بحث مباحثے دیکھنے اور سننے کو نہیں ملے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے افراط زر اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہو گا کیونکہ گیس صنعتوں اور کارخانوں کو چلاتی ہے اور گیس کی قیمتوں میں اس ہوشربا اضافے سے اشیا کو تیار کرنے کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ نتیجتاً مصنوعات اور مختلف سروسز مہنگی ہوں جائیں گی۔ مزید برآں اس کی وجہ سے سی این جی کی قیمتیں پٹرول سے بھی مہنگی ہو جائیں گی اور وہ سی این جی انڈسٹری جو ہزارہا لوگوں کو ملازمت فراہم کرتی ہے اپنی موت آپ مر جائے گی۔
بیل آؤٹ
حکومت اور بالخصوص وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج لینے یا نہ لینے کے فیصلے کو اپنی فیصلہ نہ کرنے کی صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے پہلے ہی تاخیر کا شکار کر دیا ہے۔ ایک ہفتہ قبل وزیر خزانہ اسد عمر کی ایک میٹنگ آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ ہوئی اور ہم سب نے اسد عمر کو اپنے پرانے بیانات اور پالیسی پر یو ٹرن لیتے دیکھا جن کے مطابق وہ فرماتے تھے کہ حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج نہیں لینا چاہیے۔اسد عمر کے خیال میں آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ ان کی میٹنگ ایک ممکنہ بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے کا نکتہ آغاز ہے۔ یعنی یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت پاکستان بیل آوٹ پیکج کے لئے گفت و شنید کا آغاز کر چکی ہے۔
اظہار رائے پر پابندی عائد کرنے کے لئے کمیٹی کی تشکیل
وزارت اطلاعات کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ یہ ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دے گی جو اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں کو ملنے والے سرکاری اشتہارات کو خود جانچ پڑتال کے بعد انہیں کسی بھی اخبار یا ٹیلی وژن کو جاری کرنے کا فیصلہ کرے گی۔ سرکاری اشتہارات اربوں روپے مالیت کے ہوتے ہیں اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی منتخب حکومت نے ایسی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کمیٹی کی صدارت وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے پاس ہو گی جبکہ سندھ کے صوبے کو چھوڑ کر بقیہ تین صوبوں کے انفارمیشن منسٹرز اس کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ سینییٹر فیصل جاوید بھی اس کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ فیصل جاوید نے وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیوں کی نیلامی کے لئے بنائے جانے والے وڈیو کلپس کہ تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور وہ ایک عدد میڈیا ایجنسی کے بھی بہت قریب تصور کیے جاتے ہیں۔ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی نے اس کمیٹی کے قیام پر شدید تنقید اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے پریس پر سینسرشپ عائد کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اے پی این ایس نے اس کمیٹی کو اٹھارہویں ترمیم پر ایک حملے کے مترادف بھی قرار دیا ہے کیونکہ اس کمیٹی میں تین صوبوں کے وزرائے اطلاعات کی شمولیت سے مرکز کو صوبوں کے اشتہاری بجٹ پر اجارہ داری مل جائے گی۔ اے پی این ایس کی نظر میں تحریک انصاف کی اٹھارہویں ترمیم کے ساتھ کمٹمنٹ بھی شک و شبہ سے مبرا نہیں۔
دوستوں کی حکومت، دوستوں کی طرف سے، دوستوں کے لئے
تحریک انصاف اقتدار میں آنے سے پہلے موروثی سیاست اور ذاتی تعلق کی بنا پر حکومتی اداروں کی بندر بانٹ کے خلاف خوب شور مچاتی تھی۔ لیکن حکومت میں آنے کے بعد اس جماعت کے لگائے گئے وزرا اور مشیروں کی فہرست اس کے دعوں کے بالکل برعکس ہے. نعیم الحق کو وزیراعظم کا خصوصی اسسٹنٹ بنا کر انہیں وزیر مملکت کا درجہ صرف عمران خان سے دوستی کی وجہ سے دیا گیا۔ عمران خان کے قریبی دوست عون چوہدری کو وزیر اعلیٰ پنجاب کا مشیر بنا دیا گیا جبکہ ان کے ایک اور عزیز دوست ذلفی بخاری کو وزیراعظم کا اسسٹنٹ برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی اور افرادی قوت تعینات کر کے قر مملکت کا درجہ دے دیا گیا۔ دو عدد مزید دوست جہانگیر ترین اور برطانوی پراپرٹی ٹائیکون انیل مسرت وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والی سرکاری میٹنگز میں موجود رہتے ہیں. وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیٹے اور بھتیجے کو پارلیمانی سیکرٹری کے عہدے نوازے گئے ہیں جبکہ ضمنی انتخابات کے لئے بیشتر ٹکٹ تحریک انصاف کے موجودہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کے عزیزوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کیے گئے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے موروثی سیاست اور اقربا پروری کی سیاست نہ کرنے کے دعوے کھوکھلے ہیں۔
مصنف صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں اور ماضی میں ڈان، دی نیوز، ایکسپریس ٹریبیون، ے آر وائے اور سما نیوز سے وابستہ رہ چکے ہیں اور پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں