بدر رشید نہیں، اس کے پیچھے چھپے عاقبت نااندیش لوگ پاکستان کی جگ ہنسائی کے ذمہ دار ہیں

بدر رشید نہیں، اس کے پیچھے چھپے عاقبت نااندیش لوگ پاکستان کی جگ ہنسائی کے ذمہ دار ہیں
سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف، وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، تین عدد ریٹائرڈ جرنیلوں اور کئی سابق وفاقی وزرا سمیت مسلم لیگی رہنماؤں پر مقدمہ درج کرنے کا مدعی بدر رشید خان ہیرا پاکستان تحریک انصاف یوتھ ونگ راوی ٹاؤن کا صدر ہے جس پراقدام قتل،ناجائز اسلحہ رکھنے اور کار سرکار میں مداخلت کے مقدمات درج ہیں۔

جی ہاں، یہ وہی بدر رشید خان ہیں جنہوں نے مسلم لیگی قیادت پر بغاوت کا مقدمہ درج کروایا اور ایف آئی آر میں خود کو ایک محب وطن شہری بھی قرار دیا تھا۔ بدر رشید نہ صرف خود ایک سیاسی کردار اور پاکستان تحریک انصاف کا تنظیمی عہدیدار ہے بلکہ یہ کئی مقدمات میں بطور ملزم بھی نامزد ہے جن میں اقدامِ قتل تک کا مقدمہ شامل ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق شہری بدر رشید پر اقدام قتل کا مقدمہ تھانہ شاہدرہ جبکہ ناجائز اسلحے کا مقدمہ تھانہ شرقپور میں درج ہے۔ علاوہ ازیں بدر رشید پر کارِ سرکار میں مداخلت اور پولیس سےہاتھا پائی کا مقدمہ تھانہ انار کلی لاہور میں درج ہے۔ پولیس کے مطابق اس کیس کا مدعی گذشتہ بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی ٹکٹ پر یونین کونسل چیئرمین کا الیکشن بھی لڑ چکا ہے اور اس کے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سے قریبی تعلقات بھی پائے جاتے ہیں۔

                 

یاد رہے کہ سوموار کو علی الصبح سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ن لیگی قیادت پر اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے الزام میں بدر رشید کی جانب سے تھانہ شاہدرہ میں بغاوت مقدمہ درج کیا گیا۔ بقول وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کے وزیر اعظم عمران خان نے اس مقدمے کی مخالفت کی مگر مدعی کا تعلق تحریک انصاف اور چوہدری سرور سے نکل آنے پر اہم سوال جنم لیتا ہے کہ ایک مطلوبہ مجرم نے کس اثرورسوخ کی بنیاد پر انتہائی سنگین مقدمہ درج کروایا۔

اس حوالے سے بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ وزیر اعظم کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ملک میں درج ہونے والی ہر ایف آئی آر پر نظر رکھے یا یہ فیصلے کرے کہ کون سا مقدمہ درج ہو گا اور کون سا نہیں۔ اس حوالے سے لیکن سینیئر صحافیوں کا ماننا ہے کہ وزیر اعظم صاحب کا اس بارے میں مکمل طور پر لاعلم ہونا نہیں بنتا اور جس عجلت میں یہ ایف آئی آر کاٹی گئی ہے، یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں۔ کیونکہ جب پاکستان میں ایک عام شہری ایک چوری یا کسی معمولی جرم کی ایف آئی آر کٹوانے بھی جاتا ہے تو ہمارا نظام اس کو ٹھیک ٹھاک خجل کرتا ہے۔



ہم نیوز سے بات کرتے ہوئے اینکر منصور علی خان نے کہا کہ جب کوئی شہری قتل یا چوری کا مقدمہ درج کروانے کے لئے جاتا ہے تو ہمارا نظام اتنا بھی تیز نہیں ہے کہ فوراً اس کی دادرسی ہو جائے، اس میں ایس پی اور ڈی ایس پی ملوث ہوتے ہیں تب جا کے ایک تفتیشی عمل ہوتا ہے اور پھر فیصلہ ہوتا ہے کہ ایف آئی آر کاٹنی ہے کہ نہیں کاٹنی۔ یہاں پہ مسلم لیگ ن کی تقریباً پوری کی پوری سینیئر قیادت جس میں تین سابق جرنیل شامل ہیں، وزیر اعظم آزاد کشمیر شامل ہے، اگر آپ کے خیال میں ایک عام شہری بس پولیس سٹیشن گیا اور اس نے کہا کہ ایک ایف آئی آر کاٹ دیں اور پولیس نے آنکھیں بند کر کے کاٹ دی تو میرا نہیں خیال کہ نظام ابھی اتنا مؤثر ہوا ہے۔

     

لیکن یہاں یہ بیان کرنا انتہائی اہم ہے کہ سیکشن 196 کے تحت بغاوت کا کوئی مقدمہ بغیر وفاقی یا صوبائی حکومت یا پھر ان کی طرف سے نامزد کیے گئے کسی شخص کی جانب سے درج کروائے بغیر عدالت اس پر کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔ یعنی اگر کوئی عام شہری بغاوت کا مقدمہ درج کروائے تو یہ مقدمہ نہیں بنتا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کی جانب سے بار بار یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے اور وزیر اعظم عمران خان کو اس کا علم نہیں تو پھر لامحالہ اس میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا حکم شامل ہوگا کیونکہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے حکم کے تحت ہی یہ مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔

یہاں یہ امر بھی سامعین و ناظرین کے لئے دلچسپی کا باعث ہوگا کہ بدر رشید نامی یہ شخص مختلف مواقع پر نہ صرف تحریک انصاف کی سینیئر قیادت کے ساتھ ملتا رہا ہے بلکہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور سابق ڈائریکٹر جنرل ISPR میجر جنرل آصف غفور کے ساتھ بھی اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔



پاکستان میں ایسے مشکوک کرداروں کی کمی نہیں جو ایسے مواقع پر اس قسم کی کارروائیاں ڈالنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ کچھ سینیئر وکلا بھی ایسی عدالتی درخواستیں ڈال کر کچھ مخصوص لوگوں اور تنظیموں کے فخریہ آلہ کار بنتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے گذشتہ دورِ حکومت میں ایسا ہی ایک کردار متعدد مقدمات میں ان کے خلاف مدعی تھا جو کبھی ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے پہلے ان کے خلاف stay لے لیتا تو کبھی چند مخصوص حلقوں کے لئے ناپسندیدہ سرکاری عہدیداروں کے خلاف عدالتی درخواستیں جمع کرواتا اور زیادہ تر اس کی یہ درخواستیں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوتیں۔ ایسا ہی ایک کردار ریاض حنیف راہی تھا جس نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملزمت میں توسیع کے خلاف درخواست گذشتہ برس سپریم کورٹ میں ڈال دی تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایف آئی اے کو خبر دینے والا صحافی وحید ڈوگر ہو یا ماضی کے بے شمار ایسے کردار جو انتہائی اہم مواقع پر ہی سامنے آتے تھے اور پھر غائب ہو جاتے تھے، پاکستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔



بدر رشید کوئی بھی ہو، تاریخ کا ریکارڈ درست کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس شخص کو پکڑ کر اس سے تفتیش کی جائے اور اس کے پیچھے چھپے اصل کرداروں تک پہنچا جائے جو یہ بھی نہیں جانتے کہ آزاد کشمیر کا وزیر اعظم ایک آزاد اور خودمختار سیاسی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کے خلاف مقدمہ درج کرنا سفارتی سطح پر ایک بہت بڑی حماقت ہے جس کے وہ مرتکب ہو چکے ہیں اور اب دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.