لبنانی فلم Capernaum جو جنگ زدہ علاقے کا کرب دکھاتی ہے

جیل میں جب زین کو اس کی ماں ملنے آتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ وہ پھر سے ایک بچے کی ماں بننے والی ہے تو اس بات پہ زین تلملا اٹھتا ہے اور والدین کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیتا ہے۔ جج جب زین سے پوچھتا ہے کہ وہ اپنے والدین سے کیا چاہتا ہے؟ تو زین اس سوال کا جواب کچھ یوں دیتا ہے؛ 'میں چاہتا ہوں کہ وہ بچے پیدا کرنا بند کر دیں۔'

لبنانی فلم Capernaum جو جنگ زدہ علاقے کا کرب دکھاتی ہے

ہم کس زمانے میں پیدا ہوتے ہیں اس بات کا ہماری زندگیوں اور ہماری موت سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ایک جنگ زدہ علاقے میں جنگ کے زمانے میں پیدا ہونے والے بچوں کی زندگی بہت حد تک اس ماحول سے متاثر ہوتی ہے اور اکثر واقعات میں یہی ماحول ان کی موت کے لیے بھی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ ایک بچہ جنگ کے ماحول میں پیدا ہو کے اپنی نوعمری، نوجوانی اور جوانی کے دن گزار کر بڑا ہوتا ہے (اگر وہ کسی بم دھماکے یا خودکش حملے میں ہلاک یا جاں بحق یا شہید ہونے سے محفوظ رہ گیا ہے) تو غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس کی شخصیت کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے میں جنگ زدہ ماحول کا کتنا بڑا ہاتھ ہے؟ اگر یہی بچہ کسی اور دھرتی پر یا کسی اور وقت میں پیدا ہوتا تو کیا وہ اسی طرح کا شخص ہوتا جیسا وہ جنگ زدہ علاقے میں پیدا ہو کے بنا ہے؟ اس کی بس یہ غلطی ہے کہ وہ غلط وقت پہ پیدا ہو گیا ہے۔ زندگی کو اس نے خوف، دہشت، ہراس، یاسیت، تشدد، بارود، دھماکوں، حملوں، خون آلود سڑکوں، اور بے یقینی کے الفاظ سے لکھی دستاویز کے طور پر پہچانا ہے۔

اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ کی زندگی بہت مشکل ہے تو پھر آپ لبنانی ڈائریکٹر نادین لباکی کی فلم Capernaum یعنی کفر ناحوم ضرور دیکھیں۔ اس میں ایسی مشکلات کی کہانی سنائی گئی ہے جن کا امن کی دھرتی پر بسنے والے انسان اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ یہ فلم عالمی سطح پر اگر کئی ایوارڈز اپنے نام کر چکی ہے تو یقیناً وہ ان تمام ایوارڈز کی مستحق بھی ہے۔

یہ کہانی ہے ایک 12 سالہ بچے زین کی جس کے والدین جنگ زدہ ملک شام سے دربدر ہو کر لبنان آتے ہیں اور ایک پناہ گزین کیمپ میں رہ رہے ہیں۔ انتہائی کسمپرسی کے حالات کے باعث چھوٹے سے زین کو گھر کا خرچ چلانے میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹانا پڑتا ہے اور کام کرنے کی وجہ سے وہ سکول بھی نہیں جا سکتا۔

یہاں پناہ گزینوں کی زندگیوں کے دلخراش امیجز دیکھنے والے کی روح تک پر اثر کرتے ہیں اور دیکھنے والا زندگی کی ناانصافیوں کا تماشہ آنسو بہائے بغیر نہیں دیکھ سکتا۔ جنگوں نے ہماری دنیا کو جس انداز میں الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے، اس میں اُن بچوں یا اُن والدین کا کیا قصور ہے جو جنگ زدہ علاقوں میں پیدا ہوئے یا جنہیں وہاں رہنے پر مجبور کر دیا گیا۔ کتنے بچے، کتنی بچیاں، کتنے انسان جنگوں کی تباہ کاریوں اور ہولناکیوں کا ایندھن بن گئے۔ کتنی جوانیاں بے مقصد ضائع ہو گئیں اور کتنی عزّتیں خواہ مخواہ کی لڑائیوں میں برباد ہو گئیں۔

فلم کی کہانی عدالت کے منظر سے شروع ہوتی ہے جہاں 12 سالہ زین مدعی کے طور پر اپنی وکیل (وکیل کا کردار فلم کی ڈائریکٹر نے ادا کیا ہے) کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور استغاثہ کی جگہ زین کے ماں باپ کمرہ عدالت میں حاضر ہوتے ہیں۔ جیل سے ہی زین ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں ٹیلی فون کے ذریعے شامل ہوتا ہے اور دنیا کو بتاتا ہے کہ پیدا ہو کے وہ کس طرح کے مسائل کا شکار ہے۔ یہیں سے زین شادی شدہ لوگوں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ بچے پیدا کرنا چھوڑ دیں۔ زین کے اس فون کے بعد میڈیا وہاں پہنچ جاتا ہے، وکیل پہنچتے ہیں، حکومتیں حرکت میں آتی ہیں اور یوں ان پناہ گزین قیدیوں کو ان کے ملکوں تک پہنچانے کی کارروائی کا آغاز ہو جاتا ہے۔

زین اپنی کم عمر بہن کے خاوند کو دن دیہاڑے خنجر مار مار کر شدید زخمی کر دیتا ہے اور اس جرم میں جیل پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس کا بہنوئی وہی شخص ہے جس کے پاس زین مزدوری کرتا ہے اور گھر کا خرچ چلاتا ہے۔ زین کی بہن سارہ قبل از وقت بلوغت کو پہنچ جاتی ہے اور سارہ کے والدین مجبوری میں سارہ کی شادی اس موقع پرست شخص سے کر دیتے ہیں جس کے پاس زین کام کرتا ہے۔ بچی شادی کے تیسرے ماہ میں حاملہ ہو جاتی ہے اور پھر بہت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے اسے اسپتال لے جایا جاتا ہے مگر چونکہ وہ اس ملک کے مستقل شہری نہیں ہیں اس لیے انہیں علاج کی سہولت بھی نہیں مل سکتی جس کی وجہ سے سارہ ہسپتال کے دروازے پر ہی جان گنوا بیٹھتی ہے۔ اسی قصور میں زین اپنے بہنوئی کو خنجر مار کر زخمی کرتا ہے اور جیل پہنچا دیا جاتا ہے۔ جیل میں جب زین کو اس کی ماں ملنے آتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ وہ پھر سے ایک بچے کی ماں بننے والی ہے تو اس بات پہ زین تلملا اٹھتا ہے اور والدین کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیتا ہے۔

جج جب زین سے پوچھتا ہے کہ وہ اپنے والدین سے کیا چاہتا ہے؟ تو زین اس سوال کا جواب کچھ یوں دیتا ہے؛ 'میں چاہتا ہوں کہ وہ بچے پیدا کرنا بند کر دیں۔'

اسی عدالت میں زین کی ماں پناہ گزین کے طور پر اپنی مجبوریاں سناتی ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہے جس طرح کی زندگی مجھے ملی ہے، اگر آپ لوگوں میں سے کسی کو ملتی تو آپ لوگ شاید اسے درجنوں بار ختم کر چکے ہوتے۔ مجھے ہی پتہ ہے میں کیسے اس زندگی میں سے گزری ہوں اور چونکہ کوئی اور میری زندگی کے بارے میں نہیں جان سکتا لہٰذا کسی کو یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ وہ مجھے جج کرے اور میرے بارے میں کوئی فیصلہ سنائے۔

غیر قانونی طور پر لبنان میں موجود کئی غیر ملکی شہریوں میں سے ایک اہم کردار راحیل کا ہے اور اس کردار کے ذریعے دربدری کے درد کو جتنی عمدگی سے پورٹرے کیا گیا ہے وہ روح پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔

جن لوگوں کو سنیما کے حوالے سے سنجیدہ کونٹینٹ کی تلاش رہتی ہے یہ فلم انہی کے لیے ہے۔ خود دیکھیں اور جن سے پیار کرتے ہیں انہیں بھی یہ فلم ضرور دکھائیں۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں اور عالمی ادب، سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نیا دور کے ساتھ بطور تحقیق کار اور لکھاری منسلک ہیں۔