مُلّا صدرا ایران کے نام ور مسلم فلسفیوں میں سے ایک ہے جو گذشتہ دو، تین صدیوں سے ایران کے مؤثر ترین فلاسفہ میں شمار ہوتا ہے۔ ملا صدرا کا فلسفہ حکمتِ متعالیہ کے نام سے معروف ہے۔ حکمتِ متعالیہ کی اصطلاح میری معلومات کے مطابق سب سے پہلے ابنِ سینا نے اپنی کتاب 'الاشارات و التنبیہات' کی دسویں نمط کی نویں فصل میں استعمال کی ہے۔ جب وہ افلاک کے لئے نفس ناطقہ کا اثبات کرتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ بات عام فلاسفہ پر بھی مخفی رہی ہے، سوائے ان کے جو حکمتِ متعالیہ میں پختگی رکھتے ہیں۔ ابنِ سینا کے بعد بھی بعض حکماء نے اس اصطلاح کو استعمال کیا ہے۔ ملا صدرالدین شیرازی المعروف ملا صدرا نے بطور خاص تو اپنے فلسفہ کو حکمتِ متعالیہ کا نام نہیں دیا لیکن اپنی اہم ترین کتاب کا نام 'الحکمۃ المتعالیۃ فی الاسفار العقلیۃ الاربعہ' رکھا اور بعد کے ادوار میں ملا صدرا کا مکتبِ فکر 'حکمت متعالیہ' کے نام سے معروف ہو گیا۔
ملا صدرا نے یونانی فلاسفہ بالخصوص نوفلاطونی فلاسفہ (فلوطین Plotinus اور اس کے پیروکاروں)، جوہرین (Atomists)، صوفیاء، متکلمین، فلاسفہ مشاء (یعنی ارسطو کے پیروکار سمجھے جانے والے مسلم فلاسفہ جیسے ابن سینا، فارابی وغیرہما) اور ان کے ساتھ قرآن و حدیث کی تاویل کرنے کی کوشش کی تھی۔
وہ عقل، شہود اور وحی تینوں کو ایک ہی راستے کا مسافر سمجھتا ہے۔ ملا صدرا فلسفی سے زیادہ ایک صوفی ہے۔ اس نے صوفیاء کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے ہی اپنے نظریات کی تکمیل کی تھی۔ صوفیاء حقیقت یا خدا تک پہنچنے کے لئے چار سفروں کے قائل ہیں۔ ملا صدرا نے انہی چار سفروں کو فلسفیانہ مباحث کے لئے چنا اور اپنی اہم ترین کتاب ' اسفار اربعہ' میں فلسفیانہ مباحث کو صوفیاء کی دیکھا دیکھی چار عقلی سفروں میں بیان کیا۔
صوفیاء کے سفر اس ترتیب سے ہیں:
1۔ سفر من الخلق الی الحق؛ اس کے مطابق ملا صدرا نے اپنی کتاب کی فصل اول ترتیب دی ہے جو وجود کے عمومی احکام پر مشتمل ہے۔
2۔ سفر بالحق فی الحق؛ اس کے مطابق اسفار کی دوسری فصل ہے جو جواہر و اعراض کے بارے میں ہے۔
3۔ سفر من الحق الی الخلق بالحق؛ اس کے مطابق تیسری فصل ہے جو خدا شناسی و صفات خدا پر مشتمل ہے۔
4۔ سفر فی الخلق بالحق؛ اس سفر کے لئے ملا صدرا نے چوتھی فصل ترتیب دی ہے جو نفس اور معاد کے بارے اس کے نظریات پر مشتمل ہے۔
اس طرح ملا صدرا نے بزعم خود تصوف و فلسفہ میں یکجائی ایجاد کرنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ صوفیاء کے ہاں سیر و سلوک کے یہ چار سفر تہذیب نفس کے ذریعے طے پاتے ہیں اور صوفی جوں جوں تہذیب نفس کے سفر میں آگے بڑھتا ہے اس کے لئے حقائق کی نئی دنیا آشکار ہوتی چلی جاتی ہے۔ جبکہ ملا صدرا سیر و سلوک کے اس سفر کو عقل و شہود کو ساتھ ملا کر طے کرنا چاہتا ہے۔
ملا صدرا نے مسلم فلاسفہ کے درمیان اصالتِ وجود، تشکیکِ وجود، وحدت در عین کثرت، حرکتِ جوہری، نفس کا جسمانیۃ الحدوث اور روحانیۃ البقاء ہونا جیسے نظریات متعارف کروائے۔
لیکن یہ سمجھنا مغالطہ ہے کہ یہ سب ملا صدرا کی فکر کی ایجاد ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ملا صدرا کے زیادہ تر نظریات یونان کے نوفلاطونی فلسفہ اور جوہری فلسفہ سے ماخوذ ہیں۔ گو کہ ملا صدرا قرآن و حدیث سے بھی اپنے نظریات کا حوالہ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور صوفیاء کے مکاشفات، بطور خاص محی الدین ابنِ عربی کے مکاشفات و نظریات سے شواہد لاتا ہے، لیکن میرے خیال میں یہ سب صرف تطبیق ہے۔ یعنی ایک نظریہ بنا کر اس کے لئے شواہد ڈھونڈنے کی کوشش ہے۔ (بطور نمونہ ملاحظہ ہو: اسفارِ اربعہ، جلد 3، صفحہ 111)
ملا صدرا کا کام بعض یونانی فلاسفہ کے نظریات کی تشریح ہے۔ ملا صدرا نے جوہر کے متحرک ہونے کا جو نظریہ مسلم فلاسفہ میں متعارف کروایا تھا وہ یونان کے جوہری فلاسفہ سے ماخوذ لگتا ہے۔ ملا صدرا کے نظریہ 'حرکتِ جوہری' کے مطابق حرکت صرف اعراض میں نہیں بلکہ جوہر میں بھی جاری ہے۔ جبکہ بو علی سینا جیسے فلاسفہ مشاء، ارسطو کی طرح صرف چار مقولات (Categories) میں حرکت کے قائل تھے۔ وہ باقی کیٹگریز کو ساکن سمجھتے تھے۔ ( ٹوٹل کیٹگریز ارسطو کی تقسیم کے مطابق 10 ہیں جن میں سے ایک جوہر اور باقی 9 عرض کی اقسام ہیں)۔ ملا صدرا نے تمام کیٹگریز میں حرکت کا تصور پیش کیا جو کہ یونان کے جوہری فلاسفہ کے نظریات کے مماثل ہے جو کہتے تھے کہ جواہر ہمیشہ سے حرکت میں رہے ہیں اور آئندہ بھی حرکت میں رہیں گے۔
البتہ یونانی جواہرین کا ایٹم یا جوہر ایک جسمانی شے تھا جبکہ ملا صدرا نے ارسطو کی اتباع میں جوہر و عرض کی تقسیم وجود کے امور عامہ میں کی ہے۔ یعنی ملا صدرا کا جوہر وہی ہے جو ارسطو کا ہے جبکہ یونان کے جوہری یا ایٹمسٹ فلاسفہ اجزاء لا یتجزی کو جوہر کہتے تھے۔ یعنی جواہر ایسے اجسام ہیں جو ناقابل تقسیم ہیں۔ لیکن بہرحال وہ ان ایٹمز کو متغیر سمجھتے تھے، جو کہ جدید سائنس میں رد ہو چکا ہے۔ ملا صدرا کا حرکتِ جوہری کا نظریہ اسی ایٹمی یا جوہری نظریہ کی تفصیل ہے۔ جوہری فلاسفہ کے علاوہ ایک اور قدیم یونانی فلسفی ہیراکلائیٹس (Heraclitus) بھی تھا جو دنیا کی ہر چیز کو متحرک کہتا تھا۔ یہ 500 قبل مسیح میں گزرا ہے۔ اس کے کئی اقوال مشہور ہیں، جیسے؛ 'تم ایک دریا میں دو دفعہ قدم نہیں رکھ سکتے'، اور یہ کہ 'ہر روز ایک نیا سورج طلوع ہوتا ہے'۔ ہیراکلائیٹس کے نظریات بھی ملا صدرا کے حرکتِ جوہری کے نظریہ کا پیش خیمہ ہیں۔
اسی طرح وحدت و کثرت کا اجتماع یعنی وحدت در عین کثرت کا نظریہ بھی یونان کے جوہری فلسفی لیوسی پس (Leucippus) کی یادگار ہے جس نے وحدت اور کثرت میں مصالحت و اتحاد ایجاد کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہیراکلائیٹس (Heraclitus) نے بھی وحدت و کثرت کے اجتماع کی بات کی تھی۔ وہ کہتا تھا؛ 'کثرت وحدت سے جنم لیتی ہے اور وحدت کثرت سے'۔ ہیراکلائٹس کو جدلیاتی تضاد (Dialectical Contradiction) کے بانیوں میں بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دنیا میں وحدت ضدین کے مجموعے کا نام ہے۔ فانی، غیر فانی اور غیرفانی، فانی ہیں۔ ایک شے کی موت دوسری شے کی زندگی ہے۔ ہم ہیں اور نہیں ہیں۔
'اصالتِ وجود' یعنی وجود کا اصیل ہونا بھی ملا صدرا کا متعارف کردہ نظریہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ یہاں شیخ شہاب الدین اشراق کے مقابلے پہ مؤقف اختیار کرتا ہے، جو ماہیت کو اصیل سمجھتا تھا۔
ملا صدرا نے کہا کہ وجود ہی خارجی حقیقت ہے جبکہ ماہیت تو ایک ذہنی امر ہے جو انسان کا ذہن، وجود سے اخذ کرتا ہے۔ ذہن سے باہر صرف وجود ہی پایا جاتا ہے، ماہیت نہیں۔
اس نظریہ کو مسلم فلاسفہ کی موجودہ نسل میں ایک انقلابی نظریہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ نظریہ فلسفے کے ایک بنیادی مسئلہ کو حل نہیں کرتا۔ وہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ موجودات اور اشیاء کا وجود حقیقی و خارجی ہے یا ایسے نہیں بلکہ جیسے افلاطون کہتا ہے کہ اشیاء کا وجود تو صرف عکس ہے اور یہ اعیان یا امثال (ideas) کی صرف چھاپ ہے، جو مادہ پر لگتی ہے۔
یہاں ملا صدرا کا جواب روایتی ہے۔ وہ بھی وجود کی حقیقت کو اعیان (امثال) میں سمجھتا ہے۔ یہی نظریہ مشاء کا بھی تھا۔ جیسا کہ بوعلی سینا کا شاگرد بہمنیار کہتا ہے؛ 'و بالجملة فالوجود حقیقته انه فی الاعیان لا غیر'، یعنی وجود کی حقیت یہ ہے کہ وہ اعیان (ideas) میں موجود ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ملا صدرا نے بہمنیار کے اس قول کو اسفار کی جلد اول، مرحلہ اول، منہج اول کی چوتھی فصل میں تائید کے ساتھ نقل کیا ہے۔ بلکہ اسی فصل میں آگے چل کر خود بھی کہا ہے؛ 'والحاصل ان الوجود امر عینی'، خلاصہ کلام یہ کہ وجود ایک عینی (مثالی۔ ideal) چیز ہے۔ یہاں آ کر واضح ہوتا ہے کہ اصالتِ وجود کا نظریہ فلسفہ کے ایک روایتی مکتب (School of Thought) یعنی مثالیت پسندی یا عینیت پسندی (Idealism) کے ذیل میں آتا ہے اور ملا صدرا نے مثالیت پسندی سے باہر نکلنے کی کوشش بالکل نہیں کی۔ اگر ملا صدرا یہاں اپنے نظریہ اصالت وجود کو عینیت پسندی کے دائرہ سے باہر نکال لے جاتا تو اس کا نظریہ مسلم فلاسفی میں ایک انقلابی جست شمار ہوتا۔ لیکن ملا صدرا کے لئے یہ ممکن نہ ہو سکا اور ملا صدرا نے اسی نظریہ کے حق میں قرآنی و شہودی اورعقلی شواہد بھی تراشے ہیں۔
یاد رہے کہ مقصد یہ ثابت کرنا نہیں کہ یہ نظریہ صحیح ہے یا غلط؟ مقصد صرف یہ کہنا ہے کہ نظریہ مثالیت پسندی تو پہلے سے موجود ایک نظریہ تھا۔ یہ نظریہ ملا صدرا کی کاوش فکر نہیں بلکہ یہ نظریہ تو افلاطون سے یادگار ہے۔ ارسطو بھی اپنے استاد سے کئی ایک اختلافات کے باوجود مثالیت پسند ہی تھا۔
ملا صدرا اور شیخ اشراق کا اختلاف صرف یہ تھا کہ اعیان (امثال) میں ماہیت ہے یا وجود؟ شیخ اشراق نے ماہیت کو اصل جانا جبکہ ملا صدرا نے وجود کو، اور یہی نظریہ ابن سینا اور مشائی فلاسفہ کا بھی تھا۔
میرے خیال میں مسلم فلاسفی کے تینوں مکاتب مثالیت پسندی کے ذیلی مکاتب ہی ہیں، اس میں کوئی نیا اضافہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملا صدرا بے پناہ ذہنی صلاحیتوں کا حامل ہونے کے باوجود اور یونان و ایران و ہندوستان کے فلاسفہ قدیم کے نظریات کا وسیع احاطہ رکھنے کے باوجود، فلسفے میں کوئی انقلابی جست لگا سکا اور نا ہی فکری دنیا میں دور رس تبدیلی لا سکا۔ ملا صدرا کے شارحین بھی اس سے ایک قدم آگے نہ بڑھا سکے۔ اگر ملا صدرا کی فکر میں جدت ہوتی تو یہ جدت اس کے بعد کے فلاسفہ میں بھی اثر دکھاتی۔