حیدر آباد کا ایک صدی پرانا مُکھی ہاؤس تاریخی اثاثہ ہے

یہ محل 1920 میں جیٹھانند مُکھی نے تعمیر کروایا تھا اور یہ مُکھی خاندان کی رہائش گاہ تھا۔ ہندوستان کی تقسیم نے خاندان کو 1957 میں محل چھوڑنے پر مجبور کیا اور یہ خاندان ہمیشہ کیلئے ہندوستان چلا گیا۔ 2013 میں مکھی خاندان نے سالوں بعد اپنے گھر کا دورہ کیا اور ان کی توثیق سے اب سے عوامی میوزیم بنا دیا گیا ہے۔

حیدر آباد کا ایک صدی پرانا مُکھی ہاؤس تاریخی اثاثہ ہے

  حیدر آباد پاکستان کا آٹھواں اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے جو دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر واقع ہے۔ تاریخی طور پر بھی شہر حیدر آباد کی اک الگ اور منفرد حیثیت ہے۔ یہ شہر کلہوڑوں اور ٹالپر میروں کے دور میں سندھ کا دارالحکومت رہا ہے۔ علمی، ادبی اور سیاسی ہلچل کے لحاظ سے بھی حیدر آباد کا اہم مقام ہے۔

پاکستان بننے سے پہلے یہاں ہندو خاصی تعداد میں آباد تھے جو تقسیم کے بعد اس شہر کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ کر چلے گئے لیکن انہوں نے اپنے پیچھے اک انمول خزانہ چھوڑا۔ وہ خزانہ تھا حیدر آباد کی خوبصورت اور آرٹ سے بھرپور دلکش عمارتوں کا۔ ایسی لاتعداد عمارتیں حیدر آباد میں موجود ہیں جن میں سے کچھ اب بھی اپنی اصل حالت میں قائم ہیں جو کہ پرانے خوبصورت، ترقی یافتہ اور پرسکون ماضی کا عکس دکھائی دیتی ہیں۔

ان میں سے مُکھی محل کا نمایاں مقام ہے۔ یہ محل 1920 میں جیٹھانند مُکھی نے تعمیر کروایا تھا اور یہ مُکھی خاندان کی رہائش گاہ تھا۔ ہندوستان کی تقسیم نے خاندان کو 1957 میں محل چھوڑنے پر مجبور کیا اور یہ خاندان ہمیشہ کیلئے ہندوستان چلا گیا۔ تقسیم کے بعد محل کا انتظام کئی بار منتقل ہوا جس میں ایواکیوئی ٹرسٹ پراپرٹی بورڈ اور مختلف سرکاری اداروں کا قبضہ بھی شامل ہے، جس کی وجہ سے عمارت کو کافی نقصان پہنچا اور کچھ حصے متاثر ہوئے۔ 2008 میں مُکھی خاندان نے محل کی ملکیت کے دعوے سے دستبرداری پر اس شرط پر آمادگی ظاہر کی کہ اسے محفوظ کر کے ایک عوامی میوزیم میں تبدیل کر دیا جائے۔ لہٰذا 2009 میں سندھ حکومت کے محکمہ آثار قدیمہ نے اس گھر کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا اور محل کی بحالی کا کام شروع کیا گیا۔ 2013 میں مُکھی خاندان نے سالوں بعد اپنے قدیم گھر کا دورہ کیا۔ مُکھی ہاؤس کی مسخ شُدہ شان و شوکت کی بحالی کے بعد خاندان نے جائیداد کو عوامی میوزیم میں تبدیل کرنے کی توثیق کی۔ چنانچہ اب اسے ایک عوامی میوزیم میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

مُکھی محل پکا قلعہ روڈ پہ حسرت موہانی لائبریری کے بالمقابل پرانے حیدر آباد کے سنگم پر واقع ہے۔ مُکھی ہاؤس کی تعمیر کو تقریباً ایک صدی ہونے کو ہے، مگر یہ گھر آج بھی اہل نظر کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ مُکھی محل دیدہ زیب اور دلکش فن تعمیرات کی وجہ سے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے۔ مُکھی محل دو منزلوں پر مشتمل ہے جس میں 12 کمرے اور 2 کشادہ ہال ہیں جبکہ روشنی کے مناسب انتظام کیلئے خالص لکڑی سے بنی ہوئی کھڑکیاں اور روشندان بنائے گئے ہیں جن میں شیشم اور ساگوان کی لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے۔

اُس دور میں میں فن تعمیر کے جدید رُجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس محل کو تعمیر کیا گیا ہے۔ پوری عمارت میں اینٹ کے بجائے سُرخ بلاکس کا استعمال کیا گیا ہے۔ فرش پہ نہایت ہی دلفریب سفید رنگ کی ٹائلز نصب ہیں۔ اس محل کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس کا ایک مرکزی گنبد بھی ہے جو اسے دیگر عمارتوں سے ممتاز بناتا ہے۔

محل کا فرنیچر اب بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور اسی انداز سے رکھا گیا ہے جس انداز میں یہ مُکھی خاندان کے زیر استعمال رہا۔ محل کی ہر منزل، کمروں اور ہال میں فانوس نصب ہیں جو اس کی خوبصورتی کو مزید نکھار دیتے ہیں۔

مُکھی ہاؤس میوزیم میں اب مختلف تاریخی اور ثقافتی نوادرات رکھے گئے ہیں۔ ساتھ میں شہر حیدر آباد کی تاریخی شخصیتوں کی تصاویر اور دستاویزات کو بھی نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ نایاب پینٹنگز کو بھی میوزیم میں سجایا گیا ہے اور مُکھی خاندان کی تصاویر اور ان کے زیر استعمال چیزوں کو بھی میوزیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔ پہلی منزل کے صحن میں ' کیفے 1947' کے نام سے ایک خوبصورت کیفے بنایا گیا ہے جہاں آنے والے سیاحوں کے لیے چائے، پانی، کافی اور پیٹیز وغیرہ دستاب ہیں۔

بلاشبہ مُکھی ہاؤس کا شمار ایسی تاریخی عمارتوں میں ہوتا ہے جسے آنے والی نسلیں بھی سراہتی رہیں گی۔