پاکستان کے 20 منتخب حلقے جہاں کانٹے دار مقابلے متوقع ہیں

مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو عام انتخابات میں کامیابی ملے گی تاہم پورے پاکستان میں ایسے کچھ حلقے ہیں جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔ ہم نے پورے پاکستان سے 20 ایسے حلقے منتخب کیے ہیں جہاں کانٹے دار مقابلے متوقع ہیں۔

پاکستان کے 20 منتخب حلقے جہاں کانٹے دار مقابلے متوقع ہیں

ملک بھر میں عام انتخابات 8 فروری 2024 کو ہو رہے ہیں۔ اس روز چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں پر پولنگ ہو گی۔ پنجاب کے حصے میں قومی اسمبلی کی 141 نشستیں آتی ہیں۔ چونکہ پنجاب کے حصے میں سب سے زیادہ نشستیں آتی ہیں اس لیے یہ صوبہ انتخابات میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ جو پارٹی صوبہ پنجاب سے زیادہ سیٹیں جیت لیتی ہے مرکز میں اسی کی حکومت بنتی ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو عام انتخابات میں کامیابی ملے گی اور نواز شریف کی سربراہی میں وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گی۔ تاہم پورے پاکستان میں کچھ حلقے ایسے ہیں جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔

نیا دور نے پورے پاکستان سے 20 ایسے حلقے منتخب کیے ہیں جہاں کانٹے دار مقابلے متوقع ہیں۔ ان حلقوں کا احوال یہاں دیا جا رہا ہے؛

1۔ این اے 130

این اے 130 نواز شریف کا آبائی حلقہ ہے۔ یہ مسلم لیگ ن کی محفوظ نشست تصور کی جاتی ہے۔ میاں نواز شریف کے علاوہ بیگم کلثوم نواز بھی اس حلقے سے منتخب ہو چکی ہیں۔ اس مرتبہ پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد یہاں سے نواز شریف کے مدمقابل کھڑی ہیں۔ مبصرین کے مطابق میاں نواز شریف اور ڈاکٹر یاسمین راشد کے مابین کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ پچھلے عام انتخابات میں ڈاکٹر یاسمین راشد کو مسلم لیگ ن کے امیدوار وحید عالم خان نے اس حلقے سے ہرایا تھا۔ پچھلے انتخابات میں یہ حلقہ این اے 125 تھا۔

ڈاکٹر یاسمین راشد پی ٹی آئی دور حکومت میں وفاقی وزیر رہ چکی ہیں اور آج کل 9 مئی واقعات کے مقدموں میں جیل میں ہیں۔

ان دونوں امیدواروں کے علاوہ اس نشست پر پیپلز پارٹی سے اقبال احمد خان، جماعت اسلامی سے خلیق احمد بٹ اور تحریک لبیک پاکستان سے خرم ریاض قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔

2۔ این اے 119

مسلم لیگ ن کی سینیئر نائب صدر مریم نواز شریف لاہور کے حلقہ این اے 119 سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار شہزاد فاروق اور پیپلز پارٹی کے افتخار شاہد سے ان کا مقابلہ ہے۔ شہزاد فاروق پی ٹی آئی کے رہنما میاں عباد فاروق کے بھائی ہیں۔ عباد فاروق کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہ ملنے کے بعد ان کے بھائی شہزاد فاروق یہاں سے امیدوار ہیں۔

یہ حلقہ بھی مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، اسی وجہ سے مریم نواز کے لیے یہ حلقہ منتخب کیا گیا اور وہ پہلی بار یہاں سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہی ہیں۔

پی ٹی آئی کارکن صنم جاوید جو اس وقت جیل میں ہیں، انہوں نے بھی اسی حلقے سے مریم نواز کے مقابلے میں کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت تو دے دی تاہم وہ اس حلقے سے پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار شہزاد فاروق کی حمایت میں الیکشن سے دستبردار ہو گئی تھیں۔

مریم نواز نے 2018 میں بھی اسی حلقے سے کاغذات جمع کروائے تھے لیکن الیکشن سے پہلے ہی انہیں نا اہل قرار دے دیا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ گذشتہ عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکی تھیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں اس حلقے سے ن لیگ کے امیدوار علی پرویز ملک 1 لاکھ 13 ہزار 265 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔

3۔ این اے 122

این اے 122 لاہور سے ن لیگ کے خواجہ سعد رفیق اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اور سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ میں اہم مقابلہ متوقع ہے۔ دیگر امیدواروں میں جماعت اسلامی کی ڈاکٹر زیبا اور مرکزی مسلم لیگ سے حافظ سعید کے صاحبزادے حافظ طلحہ سعید بھی میدان میں ہیں۔

اس حلقے سے خواجہ سعد رفیق متعدد بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ پچھلے عام انتخابات میں اس حلقے سے انہیں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ عمران خان نے اس حلقے سے 84 ہزار 313 ووٹ حاصل کیے تھے۔ عمران خان نے بعدازاں یہ نشست چھوڑ دی تھی اور ضمنی انتخابات میں خواجہ سعد رفیق یہاں سے کامیاب ہو گئے تھے۔

سردار لطیف کھوسہ نے حال ہی میں پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ہے۔ وہ مختلف مقدمات میں عمران خان کے وکیل بھی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس نشست پر اچھا مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔

4۔ این اے 123

شہباز شریف قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 123 لاہور اور این اے 132 قصور سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ این اے 123 لاہور سے شہباز شریف کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے آزاد امیدوار تنظیم عظیم پاہٹ، جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے محمد ضیاء الحق ہیں۔

2018 کے عام انتخابات میں شہباز شریف نے لاہور کے حلقہ این اے 132 سے حصہ لیا تھا اور پی ٹی آئی کے امیدوار محمد منشا سندھو کے مقابلے میں 95 ہزار 864 ووٹ حاصل کیے تھے۔ شہباز شریف پی ٹی آئی امیدوار سے 46 ہزار ووٹوں کی لیڈ سے جیت کر قومی اسمبلی میں پہنچے تھے اور تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔

5۔ این اے 127

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پہلی مرتبہ لاہور سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ حلقہ این اے 127 میں ان کے مدمقابل مسلم لیگ ن کے رہنما عطاء تارڑ ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ملک ظہیر عباس کھوکھر اس حلقے سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اگرچہ بلاول بھٹو زرداری کی وجہ سے یہ حلقہ عوامی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے مگر سینیئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد کے مطابق بلاول بھٹو اس حلقے سے ہار جائیں گے۔ ان کے مطابق اس حلقے میں اصل مقابلہ عطاء تارڑ اور ملک ظہیر عباس کے مابین ہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری تیسرے نمبر پر آئیں گے۔

اس حلقے میں سنی تحریک نے مسلم لیگ ن کے امیدوار عطاء تارڑ کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

6۔ این اے 128

اس حلقے میں مسلم لیگ ن نے تحریک استحکام پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے اور عون چودھری ن لیگ کی حمایت کے ساتھ یہاں سے آئی پی پی کے امیدوار ہیں۔ ان کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار سلمان اکرم راجہ ہیں جو کئی مقدموں میں عمران خان کے وکیل بھی ہیں۔ اس حلقے میں ن لیگ کا امیدوار نہ ہونے کی وجہ سے سلمان اکرم راجہ کی پوزیشن خاصی مستحکم خیال کی جا رہی ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

پچھلے دو عام انتخابات میں ن لیگ کو اس حلقے سے شکست کھانا پڑی تھی اور یہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار شفقت محمود کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ شفقت محمود پی ٹی آئی دور حکومت میں وفاقی وزیر تعلیم رہ چکے ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں انہوں نے 1 لاکھ 27 ہزار 405 ووٹ حاصل کیے تھے۔

اس حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے عدیل غلام محی الدین اور جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔

7۔ این اے 149

این اے 149 ملتان کا حلقہ ہے جہاں سے استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر خان ترین انتخابی میدان میں اترے ہیں۔ ان کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار عامر ڈوگر کے ساتھ ہے۔ عامر ڈوگر اس حلقے سے دو بار منتخب ہو کر ممبر قومی اسمبلی بن چکے ہیں۔ 2014 کے ضمنی انتخابات میں عامر ڈوگر نے اس حلقے سے مخدوم جاوید ہاشمی کو ہرایا تھا۔ تحریک انصاف سے اختلافات کے باعث جاوید ہاشمی نے استعفیٰ دے دیا تھا اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا تھا۔

اس حلقے میں پاکستان مسلم لیگ ن کا اچھا خاصا ووٹ بینک موجود ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نتیجے میں ن لیگ کا ووٹ بھی جہانگیر ترین کو ملے گا۔ اس حلقے میں جہانگیر ترین کا اپنا ووٹ بینک بھی موجود ہے۔ اس تناظر میں استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین کی پوزیشن کافی مضبوط دکھائی دیتی ہے تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار عامر ڈوگر انہیں ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔

8۔ این اے 151

ملتان کے اس حلقہ میں شجاع آباد تحصیل اور ملتان صدر تحصیل کے علاقے شامل ہیں۔ یہ شاہ محمود قریشی کا آبائی حلقہ ہے لیکن اس مرتبہ شاہ محمود قریشی میدان میں نہیں ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں ان کی صاحبزادی مہربانو قریشی پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار ہیں جبکہ ان کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی سے ہے۔

2018 کے الیکشن میں مہربانو قریشی کے بھائی زین قریشی یہاں سے کامیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے 77 ہزار کے قریب ووٹ حاصل کیے تھے۔ ان کے مقابلے میں علی موسیٰ گیلانی نے 70 ہزار کے لگ بھگ ووٹ لیے جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار عبدالغفار ڈوگر کو 60 ہزار کے آس پاس ووٹ ملے تھے۔ 2022 کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے رہنما عبدالغفار ڈوگر نے علی موسیٰ گیلانی کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا اور یوں دونوں جماعتوں نے مل کر مہربانو قریشی کو شکست دے دی تھی۔

موجودہ انتخابات میں دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ تینوں جماعتیں الگ الگ انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں اور یہ منظرنامہ خاصا دلچسپ ہو گیا ہے۔

9۔ این اے 18

این اے 18 ہری پور کا حلقہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان اس حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں جبکہ ان کے مدمقابل پاکستان مسلم لیگ ن کے بابر نواز خان میدان میں ہیں۔

یہ وہ حلقہ ہے جس میں 2018 کے انتخابات کے دوران سب سے زیادہ ووٹ کاسٹ ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار عمر ایوب خان 1 لاکھ 72 ہزار ووٹ لے کر فاتح قرار پائے تھے۔ جبکہ ان کے مدمقابل امیدوار بابر نواز خان کو 1 لاکھ 32 ہزار ووٹ ملے تھے۔

2015 کے ضمنی انتخابات میں ن لیگ کے بابر نواز خان یہاں سے الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے مگر ان انتخابات میں ان کا مقابلہ عمر ایوب خان کے بجائے پی ٹی آئی کے امیدوار راجہ عامر زمان سے تھا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار راجہ عامر زمان نے 2013 کے عام انتخابات میں اسی نشست سے کامیابی حاصل کی تھی جب ان کے مدمقابل عمر ایوب خان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے تھے۔ ان انتخابات کے دوران راجہ عامر زمان 1 لاکھ 17 ہزار ووٹ لے کر جیتے تھے جبکہ عمر ایوب خان محض 2 ہزار ووٹوں کے فرق سے 1 لاکھ 15 ہزار ووٹ لے کر یہ نشست ہار گئے تھے۔

حالیہ انتخابات میں مذکورہ دونوں امیدوار ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے ہیں اور ماہرین کے مطابق اس حلقے میں کانٹے دار مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔

10۔ این اے 242

یہ کراچی کا حلقہ ہے جو ضلع کیماڑی کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار مصطفیٰ کمال اور پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر مندوخیل کے مابین مقابلہ ہو گا۔

2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار فیصل واؤڈا نے اس نشست پر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو بہت کم مارجن سے ہرایا تھا۔ فیصل واؤڈا کو 35 ہزار 300 جبکہ شہباز شریف کو 34 ہزار 700 ووٹ ملے تھے۔ 2018 کے انتخابات کا یہ دلچسپ مقابلہ تھا۔

فیصل واؤڈا بعد میں سینیٹر منتخب ہو گئے تھے اور انہوں نے یہ نشست خالی کر دی تھی۔ اس نشست پر ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے قادر مندوخیل اور مسلم لیگ ن کے امیدوار مفتاح اسماعیل آمنے سامنے آئے جن میں قادر مندوخیل کو کامیابی ملی تھی۔ قادر مندوخیل کو ضمنی انتخابات میں 15 ہزار 700 جبکہ مفتاح اسماعیل کو 14 ہزار 800 ووٹ ملے تھے۔ اس ضمنی انتخاب میں سید مصطفیٰ کمال کو 8 ہزار 700 ووٹ ملے تھے۔

اس حلقے کی ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں مذہبی ووٹر بہت بڑی تعداد میں موجود ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار 24 ہزار ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے تھے۔ جبکہ ایم ایم اے کے امیدوار کو 10 ہزار ووٹ ملے تھے۔ ضمنی انتخابات میں بھی تحریک لبیک کے امیدوار کو 10 ہزار 500 ووٹ ملے تھے۔

11۔ این اے 25

چارسدہ کا یہ حلقہ اے این پی کا آبائی حلقہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سے خان عبدالولی خان دو مرتبہ، اسفند یار ولی خان تین مرتبہ جبکہ بیگم نسیم ولی خان ایک مرتبہ کامیاب ہو چکی ہیں۔ اس حلقے سے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ایمل ولی خان انتخابی میدان میں موجود ہیں جبکہ ان کا مقابلہ جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار مولانا گوہر شاہ سے ہے۔ اس حلقے میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار فضل محمد خان ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کو اس نشست پر تین مرتبہ کامیابی مل چکی ہے جن میں سے دو مرتبہ مولانا گوہر شاہ کامیاب ہوئے تھے۔

2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار فضل محمد خان اس حلقے سے 83 ہزار 500 ووٹ لے کر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے اسفند یار ولی خان کو بڑے مارجن سے شکست دی تھی۔ مولانا گوہر شاہ کو 60 ہزار ووٹ ملے تھے جبکہ اسفند یار ولی خان کو 39 ہزار ووٹ ملے تھے۔

2022 کے ضمنی انتخابات میں اس حلقے سے ایمل ولی خان کے مدمقابل عمران خان میدان میں اترے تھے۔ عمران خان یہاں سے 78 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جبکہ ایمل ولی خان کو 68 ہزار ووٹ ملے تھے۔

12۔ این اے 54

این اے 54 راولپنڈی سے دو سابق وزرا کے مابین مقابلہ ہے۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اور سابق وزیر ہوا بازی غلام سرور خان روایتی حریف ہیں۔ 2018 میں غلام سرور خان نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر  انتخاب لڑا تھا جبکہ چودھری نثار علی خان آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں تھے۔

اس مرتبہ غلام سرور خان استحکام پاکستان پارٹی کی طرف سے انتخاب لڑ رہے ہیں اور چودھری نثار علی خان آزاد امیدوار ہیں۔ اس حلقے میں تحریک انصاف سے تیمور مسعود اکبر اور مسلم لیگ ن سے بیرسٹر عقیل ملک امیدوار ہیں۔ اصل مقابلہ سرور خان اور نثار علی خان میں ہوگا۔ البتہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کا ووٹ کسی ایک امیدوار کی جیت اور ہار میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

13۔ این اے 56

راولپنڈی کے حلقہ 56 میں بھی حریف سیاست دانوں میں مقابلہ ہے۔ اس حلقے سے سابق وزیر داخلہ شیخ رشید اور مسلم لیگ ن کے امیدوار حنیف عباسی آمنے سامنے ہیں۔ اسی حلقے سے تحریک انصاف نے اپنا امیدوار شہر یار ریاض کو نامزد کیا ہے۔

حنیف عباسی کا تعلق ایم ایم اے سے رہا لیکن انہوں نے اسے خیر باد کہہ دیا اور مسلم لیگ ن میں آ گئے۔ 2018 میں بھی شیخ رشید اور حنیف عباسی ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ تب یہ حلقہ این اے 60 تھا لیکن قومی انتخابات سے چار دن پہلے حنیف عباسی کو ایفی ڈرین کیس میں سزا ہو گئی اور وہ انتخابات کی دوڑ سے باہر ہو گئے۔

اس وقت سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔ شہریار ریاض مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی رہ چکے ہیں لیکن 2013 میں انہیں ٹکٹ نہیں ملا تھا اور وہ تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے۔

14۔ این اے 71

این اے 71 سیالکوٹ کا وہ انتخابی حلقہ ہے جس پر ملک بھر کی نظریں ہیں۔ اس حلقے سے سابق وزیر دفاع خواجہ آصف مسلسل تیسری مرتبہ انتخابی معرکے میں اتر رہے ہیں۔ خواجہ آصف کا اس مرتبہ مقابلہ کسی سیاسی رہنما کے ساتھ نہیں بلکہ ایک گھریلو خاتون ریحانہ امتیاز ڈار کے ساتھ ہے۔ ریحانہ ڈار اپنے بیٹے عثمان ڈار کی سیاست سے بے دخلی کی وجہ سے خود تحریک انصاف کی امیدوار کے طور پر انتخاب لڑ رہی ہیں۔

خواجہ آصف 2018 میں عثمان ڈار کو شکست دے کر کامیاب ہوئے تھے لیکن پھر یہ دعویٰ سامنے آیا کہ خواجہ آصف کو 2018 کے انتخابات میں ہرایا جا رہا تھا جس پر انہوں نے اُس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رابطہ کیا تو ان کی جیت برقرار رہی۔ خواجہ آصف نے حالیہ گفتگو میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انہوں نے جنرل باجوہ کو کال نہیں بلکہ واٹس ایپ کیا تھا۔

خواجہ آصف کے مدمقابل ریحانہ ڈار بھرپور انتخابی مہم چلا رہی ہیں اور ماں کی حیثیت سے ووٹ مانگ رہی ہیں۔ تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ اس حلقے میں سرپرائز ہو سکتا ہے۔

15۔ این اے 100

این اے 100 میں مسلم لیگ ن کے رانا ثناء اللہ خان کا اپنے سابق سیاسی ساتھی ڈاکٹر نثار جٹ کے ساتھ مقابلہ ہے۔ ڈاکٹر نثار جٹ نے دسمبر 2017 میں پاکستان مسلم لیگ ن چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی اور 2018 کا الیکشن انہوں نے رانا ثناء اللہ کے مقابلے میں لڑا تھا مگر کامیابی ان کا مقدر نہیں بنی تھی۔

قومی اسمبلی کے اس حلقہ میں رانا ثناء اللہ اور ڈاکٹر نثار جٹ کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے سدرہ سعید بندیشہ، تحریک لبیک کی طرف سے ابرار حسین اور 9 آزاد امیدوار میدان میں ہیں۔

16۔ این اے 108

این اے 108 میں بھی دو سابق وزرا آمنے سامنے ہیں۔ یہاں مقابلہ صاحبزادہ محبوب سلطان اور فیصل صالح حیات کے درمیان ہے۔

صاحبزادہ محبوب سلطان 2002 میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ 2008 میں دوبارہ منتخب ہوئے لیکن 2013 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کے طور پر میدان میں اترے تو نجف سیال سے ہار گئے۔ 2018 میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور اپنے مد مقابل فیصل صالح حیات کو ہرا دیا۔

اب ایک مرتبہ پھر دونوں روایتی حریف مدمقابل ہیں۔ فیصل صالح حیات حال ہی میں مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے ہیں۔ فیصل صالح حیات نے پیپلز پارٹی سے سیاست کا آغاز کیا تھا۔ وہ 2002 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور پھر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ میں چلے گئے تھے۔

17۔ این اے 44

این اے 44 ڈیرہ اسماعیل خان میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی کے علی امین گنڈا پور، پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی اور ن لیگ کے وقار احمد خان کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔

پی ٹی آئی کے علی امین گنڈا پور کو بظاہر ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنے سیاسی حریفوں پر برتری حاصل ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں علی امین گنڈا پور نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ کے خلاف الیکشن لڑ کر یہ نشست جیتی تھی۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ این اے 265 پشین سے بھی عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک یا بنوں کے اضلاع سے الیکشن لڑتے جن میں سے زیادہ تر ان کے آبائی یا پڑوسی حلقے ہیں۔

2018 میں فضل الرحمان نے دو حلقوں، این اے 38 اور 39 سے الیکشن لڑا تھا اور ڈی آئی خان کی دونوں نشستوں سے ہار گئے تھے۔ وہ پی ٹی آئی رہنماؤں علی امین گنڈا پور اور یعقوب شیخ سے الیکشن ہارے تھے۔

18۔ این اے 263

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی این اے 263 کوئٹہ ٹو سے مسلم لیگ ن کے جمال شاہ کاکڑ، پیپلز پارٹی کے روزی خان کاکڑ، پی ٹی آئی کے سالار خان کاکڑ اور جے یو آئی (ف) کے مفتی روزی خان کے مدمقابل ہیں۔ سرفہرست تین امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

محمود خان اچکزئی 2018 کے انتخابات میں اپنے حلقہ این اے 263 قلعہ عبداللہ بلوچستان سے الیکشن ہار گئے تھے۔ انہوں نے 19 ہزار 989 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ اے این پی کے اصغر خان اچکزئی نے 21 ہزار 417 ووٹ حاصل کیے تھے اور انہیں 14 سو 28 ووٹوں سے شکست دی تھی۔

دوسری جانب محمود خان اچکزئی نے حلقہ این اے 265 سے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے ہیں۔ امیدواروں کی دستبرداری کے آخری دن کیا جانے والا یہ اقدام مولانا فضل الرحمان کے حق میں ایک سٹریٹجک فیصلے کی نشاندہی کرتا ہے۔

19۔ این اے 33

پرویز خٹک کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کے طور پر اپنا پہلا انتخاب این اے 33 نوشہرہ ون سے پی ٹی آئی کے سید شاہ احد علی شاہ اور اے این پی کے خان پرویز (خان بابا) کے مقابل لڑ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سلیم کھوکھر اور جماعت اسلامی کے عنایت الرحمان بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔ اس حلقے میں تمام امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔

پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کے رہنما پرویز خٹک نے 2018 کے انتخابات میں این اے 25 نوشہرہ 1 سے حصہ لیا تھا۔ انہوں نے 82 ہزار 208 ووٹ حاصل کیے تھے اور پیپلز پارٹی کے امیدوار خان پرویز خان نے 35 ہزار 661 ووٹ حاصل کیے تھے۔ پرویز خٹک اس حلقے سے 46 ہزار 547 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے تھے۔

20۔ این اے 241

ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنما فاروق ستار کراچی کے حلقہ این اے 241 سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ماضی میں یہ حلقہ این اے 247 تھا اور صدر عارف علوی اس حلقے سے کامیاب ہوئے تھے۔ کراچی کے اس حلقے میں کاٹنے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے کیونکہ یہاں متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر فاروق ستار کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے خرم شیر زمان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرزا اختیار بیگ میدان میں ہیں۔

2018 میں ایم کیو ایم کے دھڑوں میں تقسیم ہونے کے بعد فاروق ستار نے اس حلقے سے الیکشن لڑا لیکن وہ پی ٹی آئی کے مرحوم رہنما عامر لیاقت حسین سے ہار گئے تھے۔ اس سال ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے خرم شیر زمان سے ہے۔

خرم شیر زمان 2018 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر سندھ اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے تھے لیکن اس سال انہیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا ہے۔ خرم شیر زمان نے 2018 میں پی ایس 110 ضلع کراچی جنوبی فور سے پیپلز پارٹی کے سید نجمی عالم کے خلاف الیکشن جیتا تھا۔