حالات کی ستم ظریفی کہیے یا نابالغ سوچ کا پروان چڑھتا غبار، ووٹر کو رام کرنے کا طریقہ یا نواز فوبیا۔ کیونکہ ملک میں کی گئی ہر خرابی کی ذمہ دار شریف برادران پر ہے۔ گو یہ حکومتی بیانیہ ہے۔ 19 نومبر کی بات ہے، میاں صاحب نے لندن علاج کی غرض سے اڑان بھری۔ یہ ایسے ممکن نہیں ہوا بلکہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست گزار اور حکومتی وکلا کے درمیان ہونے والے دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے جج صاحبان نے چار ہفتے کی اجازت دی اور توسیع کے لیے پنجاب حکومت سے رجوع کرنے کا فیصلہ دیا۔
پنجاب حکومت کے حالیہ فیصلے کے مطابق میاں نواز شریف کی لندن سے بھیجی گئی رپورٹس قابل قبول نہیں اور ان کی بنیاد پر ضمانت میں توسیع نہیں کی جا سکتی۔ حکومت نے میاں صاحب کو برطانیہ سے ڈی پورٹ کروانے کا اعلان کیا اور پھر حکومت برطانیہ کو خط بھی لکھ دیا۔ اس طرح ملک میں ایک نیا پنڈورا باکس کھل چکا ہے۔ اگر اس کی تمام صورتحال کا جائزہ لیا جائے کہ کیا میاں صاحب کو واپس لانا ممکن ہے؟
سوال تو ادھر سے شروع ہوتا ہے کہ میاں صاحب کو کن حالات میں لندن بھجوایا گیا تھا، کیا پنجاب حکومت نے غلط رپورٹس تیار کیں۔ شوکت خانم کے فیصل سلطان نے بھی دھوکہ دہی سے کام لیا، کیونکہ متحرمہ فردوس عاشق اعوان کے مطابق میچ فکس تھا۔ میچ فکس کس نے کیا؟ اور کس کے کہنے پر ہوا؟ اور اب واپس بلانے کا مقصد کیا ہے؟
وزیر اطلاعات نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "پردیسی" کے گھر آنے کا وقت ہو چکا ہے۔ عرض کیا کہ کیا یہ اتنا آسان ہے؟ حقیقت میں حکومتی سطح پر کیے گیے اس فیصلے کو ممکن بنانا مشکل لگتا ہے۔ اگر برطانیہ کے قوانین کا جائزہ لیا جائے تو کسی بھی مجرم کو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ڈی پورٹ کیا جا سکتا ہے جبکہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے دائر درخواست کو رد کیا جاتا ہے۔ مثلاً حسن، حسین اور اسحاق ڈار کو واپس لانے میں حکومت ناکام رہی تو کیا میاں صاحب کو لانے کے مقصد میں کامیاب ہوگی۔
ایک بیانیہ کے مطابق وہ ڈیل کی صورت میں گے تو کیا ڈیل ختم ہو چکی یا ان کی واپسی کسی نئی سیاسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے، ویسے اگر حکومت ارادہ کر چکی ہے تو ن لیگ کو خوش ہونا چاہیے۔ جاتی امرا ہو یا ماڈل ٹاؤن رونق لگ جائے گی۔
میاں صاحب کے نعرے وجیں گے، بلند و بالا نعرے لیگی سیاست کو نئی جلا بخشیں گے فی الحال تو سناٹا چھایا ہوا ہے۔