Get Alerts

سیاست دانوں کو لاحق 'اسٹیبلشمنٹ فوبیا' کیسے ختم ہو سکتا ہے؟

جب باقی سیاسی جماعتوں نے اپنی حکمت عملیوں سے سیاست میں مداخلت کا یہ راستہ بند کیا تو تحریک انصاف نے نا صرف اسے کھولا بلکہ اس کو تقویت بخشی۔ انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی مجبور کیا کہ وہ اپنی سیاسی جنگ میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو جگہ دیں۔

سیاست دانوں کو لاحق 'اسٹیبلشمنٹ فوبیا' کیسے ختم ہو سکتا ہے؟

انتخابات ہو چکے ہیں مگر اس کے باوجود کچھ سیاست دان ابھی بھی پارلیمانی سیاست کے بجائے احتجاجی سیاست کو ترجیح دے رہے ہیں اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان جماعتوں کے پاس پارلیمان میں نمائندگی بھی موجود ہے لیکن ان کے طرز سیاست سے وہاں بھی یہ تاثر ملتا ہے کہ ان کے نزدیک پارلیمان کے اندر بھی احتجاج اور شور و غوغا زیادہ اہم ہے جبکہ آئینی و قانونی اور اصولی سیاست کم تر حیثیت رکھتی ہے۔

انتخابات میں دھاندلی کے الزامات فوجی اسٹیبلشمنٹ پر لگائے جا رہے ہیں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ماضی کے کردار کے پیش نظر اس بیانیے کو عوامی اور عالمی سطح پر منوانے میں کوئی زیادہ تگ و دو کی بھی ضرورت نہیں بلکہ اب تو پاکستانی سیاست میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ عوامی مینڈیٹ کی بنیاد کا درجہ حاصل کر چکا ہے مگر اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ہر لگائے جانے والے نئے الزام کو شواہد سے بری الزمہ قرار دے دیا جائے۔ تحریک انصاف کو ملنے والے مینڈیٹ کی زیادہ تر بنیاد یہی بیانیہ ہے لیکن اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف آج بھی پورا سچ بولنے سے قاصر ہے اور ماضی کے واقعات پر استدلال سے فوائد تو حاصل کر رہی ہے مگر 2018 میں اسٹیبلشمنٹ سے حاصل کردہ سہولت کاریوں پر ان کو کوئی شرمندگی نہیں اور ابھی بھی ان کی ناراضگی کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان کو حاصل سہولت کاریوں کا سلسلہ بند کیوں کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ دہائی کی سیاست میں دخل اندازی کے لیے استعمال ہونے والا اصل مہرہ تحریک انصاف ہی ہے جو اب ایک کھلی کتاب ہے۔ جب باقی سیاسی جماعتوں نے اپنی حکمت عملیوں سے یہ راستہ بند کیا تو تحریک انصاف نے نا صرف اسے کھولا بلکہ اس کو تقویت بخشی اور دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی مجبور کیا کہ وہ اپنی سیاسی جنگ میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو جگہ دیں جو آئینی طور پر تو کسی صورت بھی قابل جواز نہیں مگر واقعاتی سیاست میں ان کی مجبوری کو سمجھنا مشکل دکھائی نہیں دیتا۔

اب موجودہ انتخابات میں اگر دیکھا جائے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا کردار سکیورٹی مہیا کرنے سے زیادہ نہیں تھا اور جو دھاندلی کے اشارے دیے جا رہے ہیں جن میں انتخابات سے قبل انتخابی نشان کے واپس لیے جانے سے لے کر نامزدگی کی درخواستوں پر مشکلات اور انتخابات کے بعد فارم 45 میں رد و بدل تک کا براہ راست کردار تو سول ایڈمنسٹریشن اور الیکشن کمیشن کا بنتا ہے مگر دھاندلی لگانے والوں کی طرف سے ان تمام واقعات یا اقدامات کے پیچھے اصل محرک فوجی اسٹیبلشمنت کو گردانا جا رہا ہے جس کی بنیاد زیادہ تر ان کے ماضی کے کردار پر استدلال ہی دکھائی دیتا ہے جس کی بنیاد پر اگر سیاست دانوں کی نفسیات دیکھی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ فوبیا ہو چکا ہے جسے آئین و قانون کی نظر میں ان کی سیاسی کمزوری سے زیادہ کوئی حیثیت حاصل نہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیاد ور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دھاندلی کے الزامات کے بڑے دعوے داروں میں تحریک انصاف اور جے یو آئی ہیں جن کے پاس پارلیمان میں نمانئدگی بھی موجود ہے مگر وہاں وہ اپنی سوچ و عمل سے قائد ایوان کی مفاہمتی سیاست کی آفر کے باوجود اپنے مؤقف پر اعتماد حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں حالانکہ دھاندلی کی تحقیقات ہوں یا سیاست اور جمہوریت کو درپیش دوسرے مسائل، ان کا آئینی و قانونی اصلاحات کی صورت میں اصل حل پارلیمان کے پاس موجود ہے۔

پاکستان کا آئین پارلیمان کی بالادستی کو یقینی بناتا ہے اور اگر پارلیمان اس سے مستفید ہونے میں ناکام ہے تو اس کا یہ جواز مہیا کرنا کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کام نہیں کرنے دیا جاتا، بہت ہی کمزور مؤقف ہے۔ جب کسی کے مدمقابل ہوں تو اپنی حکمت عملی سے کامیابی حاصل کرنی ہوتی ہے اور آئینی طور پر اپنے سے کمزور کے سامنے خود ہی گھٹنے ٹیک دیے جائیں یا اپنے ہی کچھ ساتھی ان کے ساتھ مل کر کمر لگوا دیں تو پھر مدمقابل کو دوش دینا انتہائی مضحکہ خیز عمل ہے۔

سیاست دانوں کی مفاہمتی سیاست میں اصل رکاوٹ ان کا سوچ و عمل ہے جس میں ذاتی مفادات کی قومی مفادات پر ترجیح ہے جس کی جھلک ان کے قول و فعل میں جھوٹ اور مبالغہ آرائی کی صورت میں ملتی ہے۔ جو اقتدار میں ہوتے ہیں وہ قومی مسائل کی طرف توجہ دینے کے بجائے اپنے اقتدار کو محفوظ بنانے اور اسے طول دینے پر لگے رہتے ہیں اور جو حزب اختلاف میں ہوتے ہیں وہ تعمیری و اصلاحی تنقید کی بجائے حکومت کو ناکام بنانے اور ان سے اقتدار چھینے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔

پارلیمان کے اندر پہلے ایک ہفتے کی کارروائی کو اگر دیکھا جائے تو اس میں ممبران کی طرف سے وہ قائد ایوان کا خطاب ہو یا کسی ممبر کی طرف سے کسی نقطے پر اظہار خیال، ان کی آواز سے زیادہ بلند باقی ممبران کی طرف سے شور سنائی دیتا ہے جس میں غالب تاثر حزب اختلاف کی طرف سے ہے۔ ان کے تحفظات اور شکایات ان کا آئینی و قانونی حق ہے مگر افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس کے اندر پارلیمانی طرز سیاست نظر نہیں آتا جو انتہائی تشویشناک امر ہے۔

اس صورت حال کو ٹھیک کرنے میں سپیکر اسمبلی آئینی دفعات اور ان کی روشنی میں بنائے گئے رولز اینڈ ریگولیشنز کا سہارا لیتے ہوئے پارلیمان کی کارروائی کو چلانے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ان کو چاہیے کہ وہ ممبران کو ان کے بیانیے پر جوابدہ ٹھہرائیں۔ اگر وہ کسی کے خلاف الزامات لگاتے ہیں تو اسے متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کو ریفر کیا جائے تا کہ ان سے اس کی حمایت میں ثبوت دریافت کر کے حل تلاش کیا جائے اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو ان کے خلاف رولز اینڈ ریگولیشنز کو حرکت میں لائیں تا کہ ان کی کی پارلیمان میں شرکت کو سنجیدہ بنایا جا سکے اور اگر ان کے الزامات میں ابتدائی شواہد موجود ہوں تو غیر جانبداری دکھاتے ہوئے ان پر تحقیقات کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔

اب کور کمانڈرز کانفرنس میں پاک فوج نے دھاندلی کے الزامات کو نا صرف یکسر مسترد کر دیا ہے بلکہ اس پر تشویش کا بھی اظہار کیا ہے جس کا مبینہ طور پر چیف آف آرمی سٹاف نے وزیر اعظم سے ملاقات میں بھی اظہار کیا ہے جو اہم اور انتہائی حساس معاملہ ہے جس سے نا صرف ہماری ملکی سیاست، جمہوریت، امن اور سلامتی وابستہ ہے بلکہ عالمی سطح پر ہمارے قومی تشخص اور عالمی برادری کے ساتھ دو طرفہ تجارت اور تعلقات کا بھی معاملہ ہے لہٰذا اب یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس پر کوئی ایکشن لیتے ہوئے تحقیقات کے عمل کو یقینی بنائے تا کہ اس الزاماتی سیاست سے جان چھڑوائی جا سکے۔

سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں، صحافتی حلقوں، ملک کے اداروں جن میں پارلیمان، فوج اور عدلیہ شامل ہیں، ان سب کو اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اس کو سیاسی بیانیوں کی نذر کر کے میڈیا میں اپنا مذاق بنوا کر ملکی امن اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنا کسی بھی صورت نہ تو سیاست کہا جا سکتا ہے اور نا ہی ملک و قوم کی خدمت کا عمل۔ ایسے الزامات سے چھٹکارا تحقیقات کے بغیر کسی بھی صورت ممکن نہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ اس کا اصل حل متعلقہ آئینی و قانونی فورمز ہی ہیں جن کے فیصلے فریقین کو پابند بنانے کی طاقت رکھتے ہیں اور ان پر عمل کروانے کا آئینی و قانونی طریقہ کار بھی موجود ہے اور اس کے پیچھے بھی کارفرما اصل چیز اداروں پر اعتماد ہی ہے جسے کسی نہ کسی صورت بحال اور قائم رکھنا پڑے گا۔