Get Alerts

سیاسی اور معاشی مسائل کا واحد حل قومی مفاہمتی پالیسی پر اتفاق ہے

وقت آ چکا ہے کہ تمام سیاسی قوتیں ملکی مفاد کی خاطر ایک نیا 'میثاق جمہوریت' کریں جو ایک نئے 'میثاق معیشت' کی داغ بیل ڈالے۔ یہ سب کچھ اسی وقت ہو سکے گا جب وسیع تر قومی مفاد میں تمام سیاسی جماعتیں مل کر بیٹھیں اور قومی مفاہمتی پالیسی پر اتفاق کریں۔

سیاسی اور معاشی مسائل کا واحد حل قومی مفاہمتی پالیسی پر اتفاق ہے

وطن عزیز پاکستان اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں شامل ہے۔ یہ پیارا وطن ہم نے کئی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔ غلامی سے آزادی کا سفر انتہائی تکلیف دہ تھا اور اس سفر کے دوران تمام مکاتب فکر کے درمیان ایثار و قربانی، اتحاد و یگانگت اور یقین مُحکم ہی ایک آزاد اور خود مختار ریاست 'پاکستان' کے قیام کا سبب بنا۔ بہادر، نڈر اور غیور پاکستانی قوم نے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے کبھی بھی کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ لیکن آج وطن عزیز پاکستان کو کئی اندرونی وبیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔

سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنا ہے اور پھر معاشی عدم استحکام جیسا ایک بہت بڑا چیلنج ہمارے سامنے ہے۔ ان تمام چیلنجز سے نمٹنے کا واحد حل ایک مضبوط اور مربوط سیاسی نظام ہے۔ 1973کے آئین کے تحت تمام سیاسی قوتوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس آئین کو مقدم جانتے ہوئے اس ملک میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو بروئے کار لاتے ہوئے پارلیمانی جمہوریت کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور آئین و قانون کی بالادستی کو ہر صورت میں یقینی بنایا جائے گا۔ لیکن مختلف ادوار میں متعدد وجوہات کی بنا پر بار بار جمہوریت کی گاڑی اپنی پٹری سے اترتی رہی۔ اس سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک کو کئی اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔

موجودہ ملکی سیاسی صورت حال بھی کچھ تسلی بخش نہیں ہے۔ غربت، افلاس اور بیماری نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ کرپشن نے تمام ملکی اداروں کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ رشوت ستانی تقریباً تمام سرکاری اداروں میں عام ہے۔ معاملات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ لوگ غربت، افلا س سے تنگ آ کر خودکشیوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔ بنیادی اشیائے زندگی لوگوں کی دسترس سے باہر ہو گئی ہیں اور لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ بجلی، پانی اور گیس کے نرخوں میں اضافے سے مڈل کلاس بھی شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ اضافی ٹیکسوں کے بوجھ نے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے۔ شاید اب مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس مزید ٹیکسوں کے بوجھ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

آئی ایم ایف نے بھی سیاسی عدم استحکام کو ملکی معیشت کے لیے شدید خطرہ قرار دیا ہے۔ ملکی معاشی ابتر صورت حال نے بیرونی سرمایہ کاری کو شدید متاثر کیا ہے۔ گردشی قرضے میں اضافہ انتہائی خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ امن و امان کی مخدوش صورت حال اور غیر ملکیوں پر دہشت گرد حملوں سے ملکی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کچھ پاکستانی صنعت کار بھی اپنی صنعتوں کو بیرون ملک لے جانے پر مجبور ہو گئے ہیں اور اس سے بیروزگاری میں اضافہ ہو گا۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

دوسری جانب حالیہ چند برسوں میں فی کس آمدنی میں مزید کمی دیکھنے کو ملی ہے جو جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک کی نسبت بھی کم ہے۔ حالیہ چند برسوں میں بھارت اور بنگلہ دیش خطے کی بڑی معیشتوں کا روپ دھار چکے ہیں۔ دوسری جانب وطن عزیز پاکستان میں لوگوں کی قوت خرید میں بھی حیرت انگیز حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ ہمارا تجارتی خسارہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور عوام قرضوں کے بوجھ تلے دبتے چلے جا رہے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ ہماری برآمدات انتہائی کم ہو چکی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ مہنگی بجلی اور ایندھن ہیں۔

اس کے علاوہ غیر تربیت یافتہ ہنرمندوں کی تعداد میں بھی اضافہ عالمی مارکیٹ میں ہماری اشیا کی کوالٹی کو متاثر کرتا ہے۔ مہنگی بجلی اور ایندھن سے ہماری پیداواری لاگت بھی عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

زرعی ملک ہونے کے باوجود ابھی تک ہم زراعت کے شعبے میں بھی خود کفیل نہیں ہو سکے ہیں۔ ان تمام چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو باہم مل کر اتفاق رائے سے قومی مفادات کے تحت فیصلے کرنے ہوں گے۔ وسیع تر قومی مفاد میں اپنے ذاتی اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنا ہوگا۔ انہیں صرف اور صرف 'پاکستانیت' کا نعرہ لگانا ہو گا۔

دوسری جانب ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو بھی اب ازسرنو ترتیب دینا ہو گا۔ خصوصاً پڑوسی ممالک سے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ پڑوسی ممالک سے دو طرفہ تجارت دراصل ہمارے اپنے بھی مفاد میں ہے۔ ان تمام چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو ایک قومی مفاہمتی پالیسی پر عمل کرنا ہو گا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ تمام سیاسی قوتیں ملکی مفاد کی خاطر ایک نیا ' میثاق جمہوریت' کریں جو دراصل ایک نئے ' میثاق معیشت' کی داغ بیل ڈالے۔ یہ سب کچھ اسی وقت ہو سکے گا جب وسیع تر قومی مفاد میں تمام سیاسی جماعتیں آپس میں مل بیٹھیں تاکہ دہشت گردی کے ناسور کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کی بحالی کا سفر بھی شروع ہو سکے۔ پاکستان سے غربت، افلاس اور بیماری کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو سکے۔ بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں میں بہتری آ سکے اور قرضوں کے بوجھ کو بھی کم کرنے میں مدد مل سکے۔ اس سلسلے میں ٹیکس اصلاحات کی بھی ضرورت ہے تا کہ ٹیکس نیٹ کو بھی مزید بڑھایا جا سکے۔ اس کے بعد ہی غریب آدمی کی کچھ داد رسی ہو سکے گی۔

اب وقت آ چکا ہے کہ تمام سیاسی قوتیں باہم مل کر ملک کو سیاسی عدم استحکام سے باہر نکالیں اور صر ف اور صرف جناح کے افکار و نظریات کی روشنی میں عوامی خدمت کے جذبے سے سرشارہو کر صرف اور صرف ایک عام غریب پاکستانی کی داد رسی کریں۔ اس سلسلے میں تمام سیاسی قوتوں کو مل کر ایک ' میثاق معیشت' کرنا ہو گا تا کہ پاکستان کو شدید معاشی عدم استحکام سے بھی باہر نکالا جا سکے اور ساتھ ہی غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے بھی راہیں ہموار ہو سکیں۔

پروفیسر کامران جیمز سیاسیات کے استاد ہیں اور فارمن کرسچین یونیورسٹی لاہور میں پڑھاتے ہیں۔