پاکستان کی ٹیم نیوزی لینڈ کے ساتھ پہلا سیمی فائنل میچ کھیلے گی۔ بابر اعظم کو قدرت نے جو موقع فراہم کیا ہے اس سے بابر اعظم کو پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئیے۔ یونانی اساطیر کے مطابق دیوتا بار بار مہربان نہیں ہوتے۔ آپ کی ضد، انا اور دوستیاں نبھانے کے تذکرے اب بھارت میں بھی ہو رہے ہیں۔ پہلے جب یہی بات پاکستان کے کرکٹر کرتے تھے جیسے شعیب ملک، شیعب اختر، تنویر احمد اور آپ کے تایا زاد بھائی کامران اکمل تو آپ ان باتوں پر کان نہیں دھرتے تھے مگر اب تو گوتم گمبھیر نے بھی کہ دیا ہے کہ بابر اعظم ایک خود غرض کپتان ہے۔ خوشدل شاہ اور حیدر علی کی مسلسل ناکامیوں نے ریزرو وکٹ کیپر محمد حارث کو ٹیم میں شامل ہونے کا موقع دیا اور اب پاکستان پر یہ وقت آ گیا ہے کہ مڈل آرڈر بلے بازوں کی جگہ وکٹ کیپر شامل ہوگا۔
ایسا ہرگز نہیں کہ ہمارے پاس مڈل آرڈر بلے باز نہیں ہیں۔ بابر اعظم خود ایک مڈل آڈر بلے باز ہیں مگر ان کی اور محمد رضوان کی اوپننگ کرنے کی بلا مقصد خواہش اور ضد نے ٹیم کو بہت نقصان پہنچا دیا ہے۔ پہلے فخر زمان اور اب شان مسعود کو ضائع کیا جا رہا ہے۔ شرجیل خان کو بھی اسی لیے ٹیم میں شامل نہیں کیا جاتا کیونکہ بابر اعظم اور محمد رضوان مڈل آرڈر پر جانے کو تیار نہیں ہیں۔ بابر اعظم مسلسل بطور اوپنر ناکام ہو رہے ہیں۔ ان کو سیمی فائنل میں محمد رضوان کے ساتھ شان مسعود کو اوپنر بھیجنا چاہئیے۔ خود ٹو ڈاؤن پوزیشن پر آ جائیں یا ون ڈاؤن کھیلیں۔
پاکستان کو نیوزی لینڈ پر ایک نفسیاتی برتری حاصل ہے۔ ہمیشہ آئی سی سی کے ایونٹس میں پاکستان نیوزی لینڈ کو ہرانے میں کامیاب رہا ہے۔ حال ہی میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے پہلے سہ فریقی سیریز بھی ہم نیوزی لینڈ میں جیت کر آئے ہیں۔ اس لیے قومی ٹیم کے پاس نیوزی لینڈ کو ہرانے کا بہترین موقع ہے۔ اگر بابر اعظم اپنی روایتی ہٹ دھرمی چھوڑ کر ٹھیک فیصلے کریں تو قدرت نے جو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں فتح حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ یوں بھی یہ مواقع بار بار نہیں ملتے۔ 1992 کے ورلڈکپ میں ایک موقع عمران خان کو قدرت نے دیا تھا اور چونکہ وہ خود غرض کپتان نہیں تھا، ٹیم مین تھا اس لئے نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔