Get Alerts

ریڈ زون فائلز: وہ تبدیلی جو سب کچھ تبدیل کر سکتی ہے

ریڈ زون فائلز: وہ تبدیلی جو سب کچھ تبدیل کر سکتی ہے
اکتوبر مایوس نہیں کرتا۔ ریڈ زون کے اندرونی ذرائع کے مطابق آئی ایس آئی میں بدھ کو کمان کی تبدیلی حالیہ مہینوں میں سب سے زیادہ دوررس نتائج کی حامل ترقی ہے۔ ملک کی سیاسی صورتحال کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے، ایجنسی کی سب سے اونچی سطح پر یہ وہ تبدیلی ہے جو بہت سی اہم جگہوں پر بہت سی بڑی اور چھوٹی لہریں پیدا کرے گی۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم اب لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی جگہ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل ہوں گے جب کہ سابق ڈی جی کو پشاور میں 11 کور کا کمانڈر مقرر کیا گیا ہے۔ جنرل فیض نے آئی ایس آئی میں ایک طویل عرصہ گزارا ہے اور وہ ہر معاملے پر گہری چھاپ چھوڑ کر گئے ہیں۔ جیسا کہ بدھ کو مریم نواز شریف کی دھواں دار پریس کانفرنس سے ظاہر ہوا۔ ہمیشہ کی طرح یہ 'معمول کی تقرریاں اور تبادلے' اپنی اہمیت کے حوالے سے غیر معمولی ہیں۔

پاکستان فوج کے جرنیلوں کی نمبر گیم

رواں ماہ تین لیفٹیننٹ جرنیلوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد، نومبر 2022 میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت پوری ہونے سے پہلے سات مزید تین ستاروں والے جرنیل سروس سے ریٹائر ہو جائیں گے۔

ہم لیفٹیننٹ جنرلوں کی سنیارٹی لسٹ کو نومبر 2022 تک دیکھیں تو سابق ڈی جی آئی ایس آئی چار سینیئر ترین جرنیلوں میں سے ایک ہوں گے۔ نئے ڈی جی آئی ایس آئی اُس وقت اِن چار لیفٹننٹ جرنیلوں کے بعد اگلے چار سینیئر ترین لیفٹیننٹ جنرلوں میں شامل ہوں گے۔

کور کمانڈ کرنے کا معاملہ

ان سرفہرست چار میں سے تین پہلے ہی کور کمانڈ کر چکے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا اس وقت راولپنڈی 10 کور کے کمانڈر ہیں۔ جی ایچ کیو کے موجودہ چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس اس سے قبل 10 کور کی کمانڈ کر چکے ہیں، جب کہ لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود پشاور 11 کور کے کمانڈر تھے جس کے بعد وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے صدر بنا دیے گئے ہیں۔ جنرل فیض کو پشاور کے کور کمانڈر کے طور پر تعینات کیے جانے کے بعد سینیئر ترین چار تھری اسٹار افسران جو اگلے سال نومبر میں سینئر ترین ہوں گے اب آرمی چیف کی پوزیشن کے اہل ہیں۔ روایت کے مطابق، جی ایچ کیو وزیر اعظم کو اگلے چیف آف آرمی سٹاف (COAS) کے طور پر غور کے لئے چار نام بھیجتا ہے۔ یہ نام عموماً اسی پاکستان ملٹری اکیڈمی (PMA) کورس کے ہوتے ہیں جو تقرری کے وقت سینیئر ترین ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وزیر اعظم دو انتخاب کرتے ہیں: چار میں سے ایک لیفٹیننٹ جنرل کو فور سٹار کے عہدے پر ترقی دے کر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی (سی جے سی ایس سی) جب کہ دوسرے کو فور سٹار چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا جاتا ہے۔

یہ پاکستان کا غیر خفیہ ترین خفیہ راز تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض کا آئی ایس آئی سے تبادلہ ہونا تھا کیونکہ انہوں نے تھری سٹار جنرل بننے کے بعد سے ابھی تک کور کی کمان نہیں کی تھی۔ ان چار جرنیلوں میں سے ایک کے طور پر جو اگلے آرمی چیف کے عہدے کے لئے زیرِ غور لائے جانے کے اہل ہوں گے، یہ توقع کی جا رہی تھی کہ انہیں کور کی کمان سونپی جائے گی۔ صرف ایک سوال تھا کہ کون سی کور؟

افغان پالیسی پر جنرل فیض حمید کا اثر اور پشاور کور

ڈی جی آئی ایس آئی کی حیثیت سے لیفٹیننٹ جنرل فیض نے پاکستان کی افغان پالیسی کی تشکیل اور اس پر عملدرآمد میں کلیدی کردار ادا کیا۔ خصوصی سفیر محمد صادق کے ساتھ وہ دوسرے شخص تھے جو امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ مذاکرات کو چلانے میں مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔ یہ دونوں افراد دوحہ اور افغانستان میں طالبان کے ساتھ رابطے میں بھی اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ جنرل فیض نے پاکستان اور بھارت کے درمیان قلیل المدتی 'بیک چینل' مذاکرات میں بھی اہم کردار ادا کیا جو گذشتہ سال کے آخر تک جاری تھے۔ تاہم، ان پر مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے سیاست میں ضرورت سے زیادہ کردار ادا کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔

حکومت کے اختتام کے وقت تک رہنے والے نئے ڈی جی آئی ایس آئی کیا کریں گے؟

آئی ایس آئی میں ان کے جانشین لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم اپنی کمان کی ترجیحات کے مطابق اقدامات کریں گے۔ پالیسی کے مختلف شعبوں بشمول داخلی سطح پر ان کے پیشرو کے نمایاں اثرات کو دیکھتے ہوئے، یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ عملی طور پر وہ ادارے کو کچھ معاملات میں کس طرح چلاتے ہیں۔ اور کیا وہ کچھ معاملات سے کنارہ کش ہو کر دوسرے معاملات کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں یا نہیں؟



یہ تقرریاں ملکی سیاست کے لئے ایک اہم وقت پر ہوئی ہیں۔ انتخابات پوری مدت بھی مکمل ہوئی تو اکتوبر 2023 تک ہونے والے ہیں، اور کون جیتے گا اس حوالے سے ریڈ زون کے اندرونی ذرائع پہلے ہی اپنا حساب کتاب کر رہے ہیں، جو یقیناً اس نظام میں حالات میں غیر متوقع تبدیلیوں کے پیش نظر سارا بیکار ثابت ہو سکتا ہے۔ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی مزید دو سال کی مدت ملازمت باقی ہے۔ وہ ستمبر 2023 میں سبکدوش ہوں گے ۔۔۔ اگر تمام چیزیں ایسے ہی چلتی رہیں۔ اگر وہ اس وقت تک اپنی موجودہ ذمہ داری میں خدمات انجام دیتے ہیں، تب بھی وہ اس وقت اپنے عہدے پر ہوں گے جب قومی اسمبلی اگست 2023 میں اپنی پانچ سالہ مدت ختم کرے گی اور نگراں حکومت حلف اٹھائے گی۔ اگرچہ یہ حساب لگانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اگر نومبر 2022 میں کوئی نیا آرمی چیف ہوتا ہے تو وہ کئی تقرریاں نئے سرے سے کرے گا۔ لیکن پھر بھی ان کے پاس 13 ماہ تو کم از کم ہیں۔ 13 انتہائی اہم ماہ۔

اگلے 13 ماہ گیم چینجر

مسلم لیگ (ن) کے اندرونی ذرائع سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے لئے آر یا پار والے 13 ماہ ہوں گے۔ ان میں سے بیشتر اکتوبر کی تقرریوں کا سانس روکے ہوئے انتظار کر رہے تھے۔ بدھ کے روز مریم نواز کی آتش گیر پریس کانفرنس اسی کے مطابق ہوئی۔ اس نے ایک پیغام بھیجا۔ ایک براہ راست پیغام۔ یہ ایک جوا تھا۔ اور یہ جوا اگلے 13 مہینوں میں اپنا رنگ دکھائے گا۔ کیا اس سے کوئی فائدہ ہوگا؟ اور کس کو؟ یہاں کوئی شرط لگانے والا نہیں۔

مسلم لیگ (ن) میں بہت سے لوگ جو امید کر رہے ہیں اور یہ امید وہ اپنی سیاسی فراست کی بنیاد پر ہی کر رہے ہیں کہ اکتوبر کی تقرریاں انہیں شاید وہ جگہ فراہم کر سکتی ہیں جس کی انہیں کھیل میں مکمل طور پر واپسی کے لئے ضرورت ہے۔ اس کا ایک حصہ بڑے پالیسی فیصلوں سے متعلق ہے جو نئی تقرریوں میں ظاہر ہونے والی شامل کی گئی ترجیحات کے تناظر میں شکل اختیار کر سکتا ہے، لیکن بنیادی بات سیاسی حربوں کی ہے۔ اپوزیشن ذرائع کا خیال ہے کہ اگر حالیہ تبدیلیوں کی وجہ سے کچھ اہم افراد پر وزیر اعظم کا انحصار کم ہوتا ہے تو یہ بذات خود وزیر اعظم کے طرزِ سیاست میں ایک بڑی تبدیلی لائے گی۔ اور اپوزیشن کا خیال ہے کہ اس کا فائدہ اسے ہوگا۔

قیاس آرائیوں کا دائرہ لامتناہی ہے۔ جن مخصوص ترامیم کے تحت حکومت نیا نیب آرڈیننس لائی ہے، یا پنڈورا پیپرز جو کچھ بتا رہے ہیں، اور یہاں تک کہ اس سال کے بقیہ مہینوں میں آنے والی سیاسی اور قانونی لڑائیاں جو لڑی جانی ہیں، یہ سب قیاس آرائیوں کے دائروں کے گرد حقیقت کا جال بننا شروع کر سکتی ہیں۔

کسی بھی بات پر شرط لگائی جا سکتی ہے۔ بس مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی بات پر شرط نہیں لگائی جا سکتی۔

 

یہ مضمون فہد حسین نے ڈان اخبار کے لئے لکھا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے رضا ہاشمی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔