لوگ کرونا سے مریں نہ مریں، بھوک اور فاقوں سے مر جائیں گے

لوگ کرونا سے مریں نہ مریں، بھوک اور فاقوں سے مر جائیں گے
چند دن قبل میں نے کراچی کے قبرستانوں کی صورتحال کو موجودہ کرونا وائرس کے تناطر میں لکھا تو ایک دوست کا فون موصول ہوا، کہتا ہے "یار تم بھی خوف سے کھیل رہے ہو؟ کبھی کچی آبادیوں کی منظر کشی کر کے ڈراتے ہو تو کبھی قبرستانوں میں قبروں کی عدم دستیابی کو بیان کرتے ہو" میں نے کہا "یہ زمینی حقائق ہیں جن سے منہ موڑنا ممکن نہیں، مگر میرا خوف اس سے بڑھ کر ہے" کہنے لگا اس سے بڑھ کر کیا؟ میں نے کہا "مجھے ڈر ہے کہ جو صورتحال نظر آرہی ہے، لوگ کرونا سے مریں نہ مریں، بھوک اور فاقوں سے مر جائیں گے۔ بلخصوص سفید پوش طبقہ جو عرصہ دراز سے کسی نہ کسی طرح اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوا تھا، مگر اب وہ بھرم ٹوٹتا ہوا نظر آ رہا ہے"۔

اگر ماضی کی بات کی جائے تو گنجان آبادیاں، صحت کی خدمات و سہولیات کی کمی، اور صاف پانی کی عدم دستیابی جیسے مسائل پاکستان میں غیر رسمی شہری آبادیوں میں رہنے والے 34 ملین افراد سمیت متوسط طبقے کے سفید پوشوں کی ایک بڑی تعداد کو گھیرے رہے ہیں، مگر ان تمام مسائل کے ساتھ ساتھ کاروبار زندگی چلتا رہا۔ پھر کرونا وائرس کا عالمی پھیلاؤ سامنے آیا، حتیٰ کہ یہ وبائی مرض پاکستان کے شہر کراچی سے ہوتا ہوا پورے پاکستان میں پھیل گیا۔ اس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے یکے بعد دیگرے لاک ڈاؤن کے اعلانات ہوئے۔ اور بات روزمرہ کی ضروری اشیاء کے علاوہ تمام دیگر کاروباروں کی بندش پہ آ کر ٹھہری۔ جس کے نتیجے میں کم آمدنی والے گھرانوں کے لئے بہت زیادہ معاشی نقصانات ہو رہے ہیں، یہ نقصانات کتنے ہوں گے ابھی اس کا تخمینہ لگانا مشکل ہے۔

پاکستان اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں 24.3 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ پاکستان ادارہ شماریات کے مطابق بیروزگاری کی شرح 5.9 فیصد ہے اور پاکستان اقتصادی سروے 2018-19 کے مطابق (پاکستان کی غیر زراعت مزدور قوت) کا 72 فیصد غیر رسمی شعبے میں ملازمت کرتا ہے۔

پاکستان میں غریب سے لے کر متوسط گھرانوں پر اگر نظر دوڑائی جائے تو واضح نظر آتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کی بچت بہت کم ہوتی ہے یا کوئی بچت نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان کی اکثریت غیر رسمی معیشت سے وابستہ ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کمانے والے ہیں، جیسے رکشہ ڈرائیور، موٹر مکینک، رنگ ساز، ٹھیلہ لگانے والے، نائی، تعمیر و نقل و حمل سے وابستہ مزدور وغیرہ۔

کچھ افراد غیر رسمی اداروں میں ملازمین کے طور پر کام کرتے ہیں۔ کچھ رسمی معیشت کا حصہ ہیں جیسے فیکٹری ورکرز، چپڑاسی اور پرائیوٹ گارڈز مگر وہاں بھی ان کی کم تنخواہ ہوتی ہے۔ بچت نہ ہونے یا کم ہونے کی بدولت ان کے لئے گھر میں بیٹھنا انتہائی مشکل ہے۔ زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے ضروری ہے کہ وہ کام کرتے رہیں۔ مگر کرونا وائرس کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن کے سبب ان کی زندگی کا پہہیہ رک گیا ہے۔ ان کی زندگی کے پہیے کو چلانے کی کوشش میں سب سے پہلے فلاحی اداروں نے مخیر حضرات کے تعاون سے حصہ لیا۔ لاک ڈاؤن کے پہلے دن سے ہی راشن و خوراک کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔  کراچی میں درجنوں ادارے روز و شب خوراک و راشن کی تقسیم میں مصروف ہیں۔ مگر مستحقین کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

کراچی میں لاک ڈاون سے متاثرو خاندانوں میں راشن اور ادویات پہنچانے میں مصروف ڈیلیور کراچی فورم کے راشن بیگز (تصویر: محمد توحید)


عالمی جنوب کے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں ہنگامی ضروریات کو دور کرنے کے لئے کوئی مناسب پروگرام موجود نہیں۔ یوں وفاقی و صوبائی حکومتیں کرونا وائرس کے سلسلے میں ہونے والے لاک ڈاؤن سے متاثرہ مزدوروں/ دیہاڑی دار طبقے کو آمدنی کے نقصان سے بچانے، اور انہیں خوراک و راشن مہیا کرنے کے بروقت اقدامات اپنانے میں ناکام رہیں۔ جس کی وجہ سے وہ مزید غربت کی طرف بڑھ گئے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کراچی جیسا شہر جو پورے پاکستان سے آنے والوں کو روزگار فراہم کرتا تھا۔ اسی شہر میں ہزاروں افراد خوراک و راشن کی تلاش میں گھر سے باہر نکلنے پر مجبور ہیں۔

کارل مارکس کی کہاوت ہے کہ پیٹ بھرا شخص کسی بھوکے شخص کی طلب کو نہیں سمجھ سکتا۔

حقیقتاً بھوک ایک ایسا عفریت ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو کھا جاتا ہے۔ ہم اردگرد نظر دوڑائیں تو کئی لوگ ایسے نظر آتے ہیں جن کو دو وقت کی روٹی بہتر انداز میں میسر نہیں ان کی زندگی اسی دو وقت کی روٹی کے حصول کے گرد گھومتی ہے۔ ایسے لوگ اس وقت کرونا وائرس سے اتنے خوفزدہ نہیں جتنے " بھوک" سے ہیں۔ ان کا کرونا بھوک ہے، جو ان کی روزی روٹی کو اس طرح نگل گیا کہ اچھے سفید پوش گھرانے آج راشن کی لائن میں لگنے کی ہمت جمع کر رہے ہیں، کیونکہ کبھی انھوں نے ہاتھ نہیں پھیلایا۔

شاید مہنگائی اور معاشی بحران اور بے روزگاری کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے آج زمیں بوس ہونے لگے ہیں۔ شہری و دیہی غریب طبقہ مالی بحران اور بدحالی کا شکار ہو چکا ہے۔ معاشی حالات خراب ہو رہے ہیں اور غذائی قلت کے باعث غذائی فسادات کا اندیشہ ہے۔ حکومت کرونا سے لڑ رہی ہے جبکہ لوگ کرونا کو بھول کر بھوک سے لڑ رہے ہیں۔

شہر کراچی میں لاک ڈاؤن کے دوران "بریانی" کی تقسیم کا منظر- (تصویر-روزنامہ جنگ 31 مارچ 2020)


ایسے حالات میں فوری ضرورت کیا ہے؟

سب سے پہلے ان اعدادوشمار کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں غیر رسمی معیشت سے وابستہ افراد کتنے ہیں؟

یونین کونسل اور وارڈ کی سطح پر انتہائی ضرورت مند افراد کی شناخت اور نشاندہی کی جائےاور انہیں ہنگامی بنیادوں پر خوراک اور راشن فراہم کیا جائے نیز اس تمام عمل میں لوگوں کی عزت نفس کا خیال رکھنا اولین ترجیح ہونا چا ہیے۔

پولیو ورکرز کے پاس موجود اعدادوشمار کو استعمال میں لایا جائے۔

پولیو ورکرز کے پاس ہر گھر/خاندان کے اعدادوشمار موجود ہیں کہ کس گھر میں کتنے افراد ہیں، سربراہ کون ہے۔

مندرجہ بالا معلومات کو یکجا کر کے استعمال کرتے ہوئے منظم انداز میں راشن اور خوراک کی تقسیم کو ممکن بنایا جا سکتا ہے-

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے