جہانگیر ترین جب پاکستان تحریک انصاف میں آئے تھے، انہیں دنیا کا صاف شفاف ترین شخص بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ نہ صرف خود عمران خان صاحب ان کی نیکی اور مالی شفافیت کی گواہیاں دیا کرتے تھے بلکہ متعدد ٹی وی اینکر بھی ہمیں بتاتے تھے کہ جہانگیر ترین سے زیادہ عقلمند کاروباری شخص پاکستان میں کوئی دوسرا ہے ہی نہیں، وہ ٹیکس بھی پورا دیتے ہیں، حکومتوں سے کبھی فائدہ بھی نہیں اٹھایا، وزیر رہتے کوئی کرپشن کا داغ ان پر کبھی نہیں لگا اور یہ اپنے کاروبار کو بھی چار چاند لگاتے چلے جا رہے ہیں۔
یہ دنیا کے لئے حیران کن تھا کہ ایک پولیس افسر کا بیٹا صرف ایک نسل کے اندر ہی پاکستان کے امیر ترین افراد میں کیسے شامل ہو گیا۔ 1990 کی دہائی میں ایک چینی کی مل لگانے والے جہانگیر ترین نے چند ہی سالوں میں خود کو اس ملک میں چینی کی کل پیداوار کا 20 فیصد بنانے والی فیکٹریوں کا مالک کیسے بنا لیا۔ لیکن ٹی وی اینکر مصر تھے کہ نہیں یہ بہت اجلے آدمی ہیں اور عمران خان یوں بھی اجلے لوگوں کو ہی اپنی جماعت میں لیتے ہیں۔ ان دنوں عمران خان صاحب پر یہ تنقید کی جا رہی تھی کہ وہ دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے لوٹوں کو اپنی جماعت میں کیوں لیتے ہیں۔ انہی دنوں شاہ محمود قریشی، خورشید محمود قصوری اور جاوید ہاشمی بھی پیپلز پارٹی ، ق لیگ اور مسلم لیگ نواز سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔ یہ وہی دن تھے جب عمران خان نے پہلی مرتبہ کہا تھا کہ فرشتے کہاں سے لاؤں؟ یہ وہی جملہ تھا جو 2007 میں بقول کاوہ موسوی کے جنرل مشرف نے ان سے کہا تھا جب انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک تقریب کے دوران یہ سوال کیا تھا کہ براڈشیٹ انکوائری میں بہت سے لوگوں کی فہرست تیار کی گئی تھی، آپ نے وہ فہرست واپس کیوں لے لی؟ جنرل مشرف کا جواب تھا کہ وہی لوگ الیکشن ہوئے تو اقتدار میں آ گئے۔ میں فرشتے کہاں سے لاؤں؟
اگلے چند سال جہانگیر ترین عمران خان پر کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرتے رہے۔ ان کو اپنے ہیلی کاپٹروں میں گھمایا، ان کو مختلف جماعتوں سے لوگ توڑ توڑ کر لا کر دیتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس کی انکوائری شروع ہوئی تو اس وقت بھی لندن اور UAE سے جو دستاویزات آئیں، ان کو نکلوانے میں جہانگیر ترین کا کلیدی کردار تھا۔ لیکن پھر الیکشن سے پہلے ہی نواز شریف کو نااہل قرار دینے والی سپریم کورٹ نے بقول عمران خان کے 'بیلنس' کرنے کے لئے جہانگیر ترین کو بھی نااہل کر دیا۔ جہانگیر ترین کے لئے یہ یقیناً ایک بہت بڑا دھچکہ تھا لیکن وہ عمران خان کے ساتھ رہے۔ 2018 کا الیکشن ہوا تو وہ خود لڑ نہیں سکتے تھے۔ فروری میں ہوئے ضمنی انتخاب میں ان کے فرزند علی ترین بھی الیکشن ہار چکے تھے لہٰذا 2018 کے انتخابات میں اس حلقے سے ترین خاندان کی چھٹی ہو گئی۔ مگر وہ عمران خان کے ساتھ جڑے رہے۔ انہوں نے آزاد امیدواروں کے لئے مفت سروس اپنے ذاتی جہاز پر چلائی۔
ان تمام تر خدامات کے عوض ان کو زراعت کے لئے بنی ٹاسک فورس کا انہیں سربراہ بنا دیا گیا۔ اس دوران ایسی خبریں آتیں کہ جہانگیر ترین نے مزید چینی کی ملیں خریدنا شروع کر دی ہیں تو عمران خان اور ان کے ساتھی ان کا دفاع کرتے۔ چینی کی قیمتیں بڑھتی گئیں۔ عمران خان دفاع کرتے رہے۔ مگر پھر یکایک کیا ہوا، کسی کو سمجھ نہیں آئی۔ ایک دن شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ آئی جس میں جہانگیر ترین صاحب کا نام بھی شامل تھا۔ وہ دن اور آج کا دن، بیچارے زیرِ عتاب ہیں۔ کبھی آہ نہیں کی۔ چپ چاپ امریکہ جا کر بیٹھ گئے۔ عمران خان کے ساتھ بات چیت کرتے رہے۔ اور حالات سازگار ہونے پر پاکستان واپس بھی آ گئے اور آ کر یہی اعلان کیا کہ وہ عمران خان کی مدد کے لئے آئے ہیں۔ چند ماہ سکون رہا۔
لیکن اب ایک بار پھر ان پر ایف آئی کا پرچہ کاٹ دیا گیا ہے۔ جہانگیر ترین کے بارے میں اب کہا جا رہا ہے کہ وہ مزید خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ اب ان کے ساتھ جو لوگ ہیں ان کے نام سامنے آئیں گے۔ وہ کھل کر سامنے آئیں گے۔ دو ماہ قبل ایک نجی تقریب میں جہانگیر ترین نے دعویٰ کیا کہ ان کے ساتھ 15 کے قریب MPA ہیں جو پنجاب میں ان کے ساتھ ہی اپنا سیاسی فیصلہ کریں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ 15 ممبران اور ہیں جو ان سے رابطہ کر چکے ہیں لیکن وہ انہیں واضح جواب دے چکے ہیں کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف جانے کے لئے تیار نہیں۔ تاہم، اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ نہ صرف جہانگیر ترین نے عمران خان کو یہ تنبیہ کی ہے کہ میں آپ کا دوست ہوں، مجھے دشمن کیوں بنا رہے ہیں، بلکہ ساتھ ہی انہوں نے 15 عدد PTI اراکین پارلیمنٹ کو اپنے گھر پر مدعو کر کے یہ واضح بھی کر دیا ہے کہ ان کے ساتھ ایک بڑا گروپ کھڑا ہو سکتا ہے۔
ان 15 افراد میں سے تین قومی اسمبلی جب کہ 12 پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے اراکین ہیں۔ ان میں جھنگ سے تعلق رکھنے والے بھروانہ بھی ہیں اور مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے دستی بھی۔ سرگودھا، چنیوٹ، صادق آباد، لودھراں، فیصل آباد اور لیہ سے تعلق رکھنے والے بھی۔ ملتان سے شیخ سلمان نعیم بھی اس ناشتے پر موجود تھے جنہوں نے صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر شاہ محمود قریشی کو شکست دی تھی اور ان کو اپنے ساتھ رکھ کر ترین صاحب نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ پارٹی کے اندر گروہ کون کون سے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما سیدہ شہلا رضا نے اگلے روز ٹوئیٹ کر کے اعلان کر دیا کہ ترین صاحب جلد آصف علی زرداری سے ملاقات کریں گے۔ دوسری طرف دعوے یہ بھی ہیں کہ ان کے رابطے شہباز شریف کے ساتھ ہیں اور وہ مسلم لیگ نواز میں جانا پسند کریں گے۔ یاد رہے کہ ان کے ساتھ موجود ایم این اے اور ایم پی اے حضرات میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اپنے ڈنڈ پر الیکشن جیت کر آئے ہیں۔ 2013 میں ن لیگ اور اس سے پہلے ق لیگ کی ٹکٹوں پر بھی منتخب ہو کر دکھا چکے ہیں۔ کوئی بھی جماعت ان کے دھڑے کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے ہمہ وقت تیار ہوگی۔ فی الحال یہ واضح نہیں کہ جہانگیر ترین کس طرف جائیں گے لیکن اس کا انحصار اس بات پر نہیں ہوگا کہ ان کے ساتھ موجود اراکین کس جماعت کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں بلکہ اس بات پر ہوگا کہ اسٹیبشلمنٹ کس جماعت کو اپنا حلیف بنانا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی یہ تمام اراکین خود کو پاکستان تحریک انصاف کا حصہ ہی بتاتے ہیں، دوسری جماعتوں میں جانے کی افواہوں کو مسترد کرتے ہیں۔ لیکن جونہی انہیں بڑے گھر سے اشارہ ہوگا یہ سب کے سب لائن بنا کر اس جماعت کی طرف چل پڑیں گے جس کی حکومت بنانا مقصود ہوگا۔ یہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ترین صاحب خود بھی فری ایجنٹ نہیں۔ وہ جن کے آدمی ہیں، انہی کے احکامات پر عمل کریں گے، اور ان کا گروپ بھی وہیں جائے گا جہاں اسے بھیجا جائے گا۔