اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین طلحہ محمود نے حکومت کی جانب سے منی بجٹ لانے پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ منی بجٹ میں میک اپ کا سامان مزید مہنگا ہوگا۔ اس پر ردعمل دیتے ہوئے سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ چیئرمین کے یہ ریمارکس صنفی امتیاز پیدا کررہے ہیں اور جب تک چیئرمین کمیٹی معذرت نہیں کریں گے کمیٹی اجلاس میں شرکت نہیں کرونگی، جس کے بعد انھوں نے احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔ مگر چیئرمین کمیٹی نے سینیٹر شیری رحمان کے کہنے پر معافی نہیں مانگی۔
خزانہ کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ سول بیوروکریسی اور ملٹری میں مراعات کا فرق واضح ہے۔ ایک ہی گریڈ کے افسران ہوتے ہیں لیکن مراعات ایک نہیں ہیں اور فوجی جرنیلوں کے گھروں میں پانچ پانچ بی ایم ڈبلیوز گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں۔ سینیئر سعدیہ عباسی نے مزید کہا کہ یہ تمام گاڑیاں بھی درآمد ہوتی ہیں ان پر ٹیکس بڑھایا جائے۔ انہوں نے سوال کیا کہ فوجی جرنیلوں کو دی گئی مراعات دوسرے افسران کو کو کیوں نہیں ہے ملتیں؟
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر قرض کی شرائط کے معاملے پر بحث ہونا تھی لیکن مشیر خزانہ کی اجلاس میں نہیں آئے جس پر کمیٹی نے مشیر خزانہ کی عدم موجودگی پر ایجنڈا موخر کردیا۔
کمیٹی کو سیکرٹری خزانہ حامد یعقوب شیخ نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مجھے چارج سنبھالے دو دن ہوئے ہیں۔ سعودی عرب سے لئے گئے قرض کی شرائط کا علم نہیں لیکن سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر کا قرض موصول ہوچکا ہے جس پر کمیٹی ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمیں معلوم ہے لون آچکا ہے ہمیں شرائط کا بتایا جائے لیکن سیکریٹری خزانہ کی لاعلمی پر کمیٹی نےمشیر خزانہ سے بریفنگ لینے کا فیصلہ کیا۔
سیکرٹری خزانہ حامد یعقوب شیخ نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ منی بجٹ تیاری کے مراحل میں ہے اور منی بجٹ تیار ہونے کے بعد کابینہ اور پھر پارلیمان میں آئے گا جس پر چیئرمین کمیٹی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جب منی بجٹ تیار ہوجائے گا تو پھر کیا فائدہ، پہلے اس پر بات کی جائے۔
کمیٹی اجلاس میں سینیٹر شیری رحمان اور سینیٹر فیصل رحمان میں تلخ کلامی ہوئی ،سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد میں اب تک ناکام رہی ہے اور پتہ نہیں کونسی ایسی شرائط ہیں جو بتائی نہیں جارہی ہیں، جس پر سینیئر فیصل رحمان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جب تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہیں ہوجاتا اس پہلے بات کرنا مناسب نہیں اور اس سلسلے میں سیاسی بیانات دینے سے گریز کیا جائے۔
سینیٹر شیری رحمان نے کہا سینٹر فیصل کے ریمارکس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بات کرنے سے روکنا اور میری بات کو ویٹو کرنا درست نہیں اور میری پارٹی کا نام آئے گا تو مجھے بات کرنے کا حق ہے کیونکہ پاکستان کی معیشت اور عوام کا جو حال ہے ہم بات بھی نہ کریں۔
سینیٹر شیری رحمان نے مزید کہاکہ پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ بھارت کا روپیہ کہاں ہے اور وہاں مہنگائی کا تناسب کیا ہے سب کو پتہ ہے لیکن یہاں مہنگائی اس خطے میں سب سے زیادہ ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے بار بار شیری رحمان کو ٹوکا جس کے بعد کمیٹی اجلاس میں تلخی پیدا ہوئی ۔
سینیٹر فیصل رحمان نے کہا کہ ائی ایم ایف سے سب سے زیادہ قرضے پی پی دور میں لئے گئے، اورﷺئی ایم ایف کو جتنا پی پی کے قرض پر سود دیا ہے اتنا تو ہم نے قرض نہیں لیا۔
سینیٹر فیصل نے سینیٹر شیری رحمان کے ریمارکس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہاں بیٹھ کر کسی کو پوائنٹ اسکورنگ کی اجازت نہیں دیں گے جس کے بعد کمیٹی نے منی بجٹ پر بھی بریفنگ موخر کردی۔