گلگت بلتستان ماضی میں شیعہ سنی فسادات کی وجہ سے خبروں میں رہا اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان میں اب بھی شیعہ سنی تفریق اور انتہاپسندانہ سوچ موجود ہے۔ گزشتہ روز سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان کے علاقے بابو سر میں مسلح جنگجو کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جو ایک وادی میں موجود ہیں اور ایک یوٹیوبر کو انٹرویو دے رہے ہیں۔میزبان کے مطابق مسلح جنگجووں نے ایک کھلی کچہر ی کا انعقاد کیا تھا۔ جہاں ملکی اور بین الاقوامی مسائل پر بات چیت ہوئی۔ یوٹیوبر عیسیٰ خان کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بندہ کہہ رہا ہے کہ میں گلگت بلتستان و کوہستان کے مجاہدین کا نائب امیر ہوں اور میرے ساتھ دیگر کمانڈر بھی موجود ہے۔ ویڈیو میں مسلح تنظیم کے کمانڈر کہہ رہے ہیں کہ اُن کا حکومت اور حساس اداروں کے ساتھ ایک معاہدہ 20 فروری 2019 کو ہوا تھا اور تاحال اس معاہدے پر عمل درامد نہیں ہوا اور حکومت امن کے ساتھ کھلواڑ کررہی ہے ۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں حکومت اور حساس ادارے یقین دلاتے رہے ہیں کہ معاہدے پر عمل درامد ہوگا لیکن تاحال اس پر عمل نہیں ہوا اور مجبورا ہم یہاں کھلی کچہری کا انعقاد کررہے ہیں۔ اس ویڈیو میں یہ بات منظر عام پر نہیں اسکی کہ وہ معاہدہ کیا تھا اور کن شرائط پر ہوا تھا لیکن سوشل میڈیا پر اس ویڈیو پر بحث مباحثہ ہوا اور کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ یہ ویڈیو پُرانی ہے اور اس کو جواز بنا کر مسائل کھڑے کئے جارہے ہیں جبکہ دوسری جانب گلگت بلتستان کے رہائشیوں کا ماننا ہے کہ یہ ویڈیو پُرانی نہیں اور حال ہی میں اس کچہری کا انعقاد کیا گیا تھا۔
گلگت بلتستان میں حکومت ، ریاستی اداروں اور مسلح تنظیم کے درمیان یہ معاہدہ سال 2019 میں ہوا تھا جب وہاں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔
صحافی اور گلگت بلتستان میں ن لیگ کی حکومت میں گلگت بلتستان حکومت میں ترجمان کے فرائض سرانجام دینے والے فیض اللہ فراق کے مطابق گلگت بلتستان کے گیٹ وے پر واقع ضلع دیامر مختلف حوالوں سے ہمشہ سے توجہ کا مرکز رہا ہے، تاریخی حوالے ہوں یا مذہبی و قبائلی رجحانات، ذاتی دشمنیوں کی کہانیاں ہوں یا مختلف اندوہناک انسانیت سوز واقعات، مہمان نوازی ہو یا یہاں کے کچھ خالص ثقافتی رشتے، جرات و بہادری کی اصطلاحیں ہوں یا انفرادی سوچوں کا انبار، مگر ان تمام حوالوں میں سے " جہادست مائنڈ سیٹ" کی موجودگی ہمشہ توجہ حاصل کرتی رہی ہے۔ کیونکہ ضلع دیامر گلگت بلتستان کا وہ واحد علاقہ ہے جہاں سب نیشنلزم نہیں ہے۔فیض اللہ فراق کے مطابق ماضی میں اس ضلع سے ہزاروں افراد جہاد کشمیر و افغانستان میں حصہ لیتے رہے ہیں اور انکی باقیات کی موجودگی کسی نہ کسی شکل میں آج بھی ہے۔ جس وجہ سے گزشتہ کچھ برسوں سے دیامر کی حدود میں انگنت ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے۔ عوامی سطح پر شدت پسندوں کے بیانیے کو تقویت تو حاصل نہیں البتہ کچھ مقامی سہولت کاروں نے شدت پسند کارروائیوں میں شدت پسندوں کا ساتھ دیا۔ ایسے عناصر میں کچھ منتخب ممبران اسمبلی اور تحریک انصاف حکومت میں شامل کچھ کابینہ کے اراکین بھی شامل ہیں۔ دیامر میں موجود انہی طالبان کمانڈروں کی بالائی علاقوں میں موجودگی سے قراقرم ہائی وے اور متصل علاقوں میں ماضی میں خوف و ہراس رہا جس کی وجہ سے قراقرم ہائے وے سے گزرنے والے مسافروں کو کانوائے کے نام پر 10 / 10 گھنٹے اذیت سے گزرنا پڑ تا تھا اور مذکورہ مسافروں کا روالپنڈی پہنچنے تک کئی کلو خون کم ہو جاتا تھا۔ دوسری جانب دیامر بھاشہ ڈیم کے سنگم پر شدت پسندوں کی روپوشی بھی ایک سوالیہ نشان تھا۔ ایسے حالات میں سیکورٹی اداروں نے دیامر میں 3 دفعہ بڑے آپریشن کئے اور 200 سے زائد افراد گرفتار بھی کئے، ان سے اسلحہ بھی برآمد کیا گیا اور کچھ ملزمان پر انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سزائیں بھی ہوئی جبکہ 2 بڑے کمانڈر مختلف جھڑپوں میں ہلاک بھی ہوئے مگر دو درجن سے زائد طالبان کا منظم گروہ دیامر کی مختلف وادیوں میں روپوش ہوا۔
فیض اللہ فراق کے مطابق دیامر میں طالبان مائنڈ سیٹ کے شدت پسندوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے میں مقتدر حلقوں کا انتہائی مثبت کردار اور ہنر مندی رہی جس کے تحت کم وقت میں مولا نا سرور شاہ کی سربراہی میں تشکیل پانے والے مفاہمتی جرگہ نے انہی شدت پسندوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے پہ قائل کیا۔ جس کے تحت دونوں فریقین کے مابین جرگے کی موجودگی میں کچھ زبانی شرائط طے پائیں جن میں سے روپوش طالبان پر بننے والے ماضی کے مقدموں میں نرمی سمیت انہیں عام شہریوں کی طرح آزاد زندگی گزارنے دئے جانا جبکہ طالبان کا گروہ اس بات کا پابند تھا کہ وہ آئندہ ملک کے اندر کسی بھی شدت پسند کارروائی کا مرتکب نہیں بنے گا۔ جبکہ یہی گروہ ریاست اور ریاستی اداروں سمیت سیکورٹی اداروں کے حوالے سے کسی بھی قسم کی منفی سرگرمی بھی نہیں کرے گا۔ 2019 کو طے پانے والی ان شرائط کے بعد حکومت اور مخالف گروہ کے مابین کئی معاملات خوش اسلوبی سے حل ہوتے رہے جبکہ دیامر کا علاقہ تاریخ کا پرامن ترین ایریا قرار پایا۔
فیض اللہ کے مطابق معاہدے میں یہ بات طے ہوئی کہ جن لوگوں پر مقدمات ہیں اُن کو مقامی عدالتوں سے خود کو کلئیر کرنا ہوگا جن میں سے درجنوں لوگ رہا بھی ہوئے لیکن جن لوگوں پر درجنوں مقدمات ہے اُن کو کیسے رہا کیا جائے یہ انصاف کے عمل کے متضاد ہے۔
نیا دور کو گلگت میں رہائش پزیر ایک صحافی نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ یہ معاہدہ ن لیگ کے دور میں ہوا تھا اور اب جن لوگوں پر مقدمات ہے یاایف اے ٹی ایف کی شرائط کی وجہ سے اُن کو تنگ کیا جارہا ہے تو یہ لوگ سڑکوں پر آئے اور اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جو لوگ جرائم میں ملوث ہے اُن کے خلاف مقدمات واپس لئے جائے جو کہ ناممکن ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی حکومت اور پولیس ابھی تک اس عمل پر خاموش ہے اور تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
نیا دور میڈیا نے گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان علی تاج اور گلگت بلتستان حکومت کے پولیس کے ترجمان مبارک جان سے اس حوالے سے موقف جاننے کی کوشش کی مگر پیغامات دیکھنے کے باؤجود انھوں نے جواب نہیں دیا اور نہ مسلسل کال کرنے پر کوئی جواب دیا۔