کبھی سوچا نہیں تھا کہ موت کے بے رحم پنجے ایک ہنستی مسکراتی، ہنسنی جیسی سیمیں درانی صاحبہ کو یک دم ہم سے چھین لیں گے۔ میری ان سے کوئی بہت زیادہ ملاقاتیں نہیں تھیں کوئی دو یا تین مگر ٹیلی فون پر، فیس بک پر اور واٹس ایپ پر ان سے اکثر رابط رہتا تھا۔
ان سے ملاقات اور تعارف کوئی تین سال پہلے ہوا جب ان کی پہلی افسانوں کی کتاب شائع ہوئی، میرے دوست عبدلوحید جو خود بھی عصر حاضر کے نمائندہ افسانہ نگار ہیں انکی توسط سے مجھے ملی۔ وحید نے بتایا یار انجمن ترقی پسند مصنفین لاھور نے ان محترمہ کی کتاب کی تقریب رونمائی کا انعقاد کرنا ہے ہم دونوں نے مضامین پڑھنے ہیں میں نے کتاب ہاتھ میں لے کر پہلے انکی تصویر دیکھی اور کہا تصویر تو بہت خوبصورت ہے، امید تحریر بھی خوبصورت ہو گی۔ خیر یہ پڑھیںِ گے تو پتا چلے گا۔ وحید نے جواب دیا۔
میں نے کتاب فوراً پڑھنی شروع کر دی، اس افسانوں کی کتاب پر میرا تفصیلی مضمون شائع ہو چکا ہے، میں ان باتوں کو اب دوہرانا نہیں چاہتا تاہم صرف اتنا کہنا چاہتا کہ انہوں نے بہت بولڈ اور بے باک مضوعات کا انتخاب کیا تھا۔ ہمارا سماج ایک عورت افسانہ نگار جبکہ عام طور جنسی تعلقات والے مضوعات پر قلم نہیں اٹھاتی ،مگر سیمیں نے اٹھایا تاہم فیمنسٹ خواتین کی طرح مردوں کے خلاف دل کھول کر لکھا۔
جب وہ تقریب میں شرکت کے لیے لاھور آئیں تو انکی موجودگی میں نے مضمون پڑھا تو انکے اس فمنسیٹ والے پہلو پر خوب تنقید کی، عبدالوحید نے بھی اپنے مضمون میں اس بات کو خوب رگڑا، تقریب کے خاتمے کے بعد چائے کے کپ پر ان سے طویل گپ شپ ہوئی، انہوں نے مضمون لکھنے پر شکریہ ادا کیا۔ میں نے کہا اگر آپ چاہیں تو اس مضمون کو شائع کرا دوں تو انہوں نے فوراً کہا ضرور، پھر اپنا فون نمبر دیا، کہا جب لگ جائے مجھے فون پر بتا دیں۔
کچھ دن بعد میرے ساتھ فیس بک پر بھی ایڈ ہو گئیں ،مضمون جب شائع ہوا تو میں نے ان کو لنک سنڈ کیا، کہنے لگیں آپ صحافی بھی ہیں؟ میری کتاب پر کچھ اور مضامین بھی لکھے گئے ہیں، ان کو بھی باری باری شائع کرا دیں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے کوشش کروں گا، خیر دو مضامین اور میں نے شائع کرا دیے مختلف جرائد میں۔
اس دوران میں نے انہیں فیس بک پر بہت بولڈ پوسٹیں شیئر کرتے اور لکھتے پایا، اپنے مرد دوستوں کو بھی وہ بے تکلفی سے مخاطب کرتی اور انکی تصاویر پر کمنٹ کرتی تھیں، جب میری افسانوں کی تیسری کتاب ہجرت شائع ہوئی تو میں نے انکو بذریعہ ڈاک ارسال کی، شکریہ کے میسج کے ساتھ انہوں نے مضمون لکھنے کا وعدہ کیا جو جلد پورا بھی کر دیا۔ مضمون میں کوئی بھی تنقیدی بات نہیں کی بلکہ تمام افسانوں کی تعریف کی تھی جب بردارم فیصل اقبال کے دفتر میری کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی تو فصیل اقبال نے وہ مضمون پڑھا۔
آج سیمیں درانی مبینہ خود کشی یا ہارٹ ایٹک کی خبر نے مجھ سمیت بہت سوں کو دکھی کر دیا۔ ایک دن انہوں نے فون پر مجھے کہا آپ بھی کپتان کے چاہنے والے ہیں میں بھی مگر میرے سسرال والے تو پکے سندھی وڈیرے ہیں اور بھٹو انکے نام کے ساتھ لگتا ہے۔ میں اس بات پر چونک گیا ایک ماڈرن درانی پٹھان خاتون کی ایک سندھی وڈیرے سے کیسے شادی ہوگئی خیر ان کی ذاتی زندگی کے حوالے سے بات کرنا مناسب نہ سمجھا، مگر ایک بات کا یقین ہوگیا چاہے وہ سارا شگفتہ ہو یا سیمیں درانی ہمارے سماج ایک بولڈ اور خوبصورت عورت کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ احباب سے انکی طلاق اور بچوں کی حوالگی کے مقدمے کے حوالے سے بھی سنے کو ملتا رہتا تھا مگر یہ گمان بھی نہ تھا کہ یہ ہنستی مسکراتی ہنسنی کی طرح فضاؤں میں اڑنے والی اچانک ایک روز جانے کہاں اڑ کر چلی جائے گی۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔