کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے

کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے
ہمارے حکمران آئی ایم ایف سے قرض لیتے ہیں اور عوام پر ٹیکس لگا کر مہنگائی کرتے ہیں، ہماری حکومت آئی تو میں خود کشی کر لوں گا لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاوؑں گا۔ دنیا گرین پاسپورٹ کی عزت کرے گی۔ ہم بجٹ عوام کی فلاح پر خرچ کریں گے۔ جنگلہ بس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں۔ عوام کو میٹرو بس کی ضرورت نہیں۔ موٹر ویز کو عوام نے چاٹنا ہے۔ نواز شریف اپنی سکیورٹی پر عوام کا پیسہ خرچ کر رہا ہے ہم اس وی آئی پی کلچر کو ختم کریں گے۔ جب تک مقدمہ چل رہا ہے نواز شریف استعفیٰ دے اور اگر بری ہو جائے تو واپس وزیراعظم بن جائے کیونکہ اس کے وزیراعظم رہنے سے ادارے غیر جانبدارانہ تفتیش نہیں کر سکیں گے۔

اسحاق ڈار ایک اکاوؑنٹنٹ ہے، اسے بجٹ بنانا نہیں آتا اسی لئے عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے، ہماری حکومت آئے گی تو مہنگائی ختم کرے گی۔ پیٹرول پر اس کی قیمت کی برابر ٹیکس لگا کر عوام کو لوٹا جا رہا ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ پیٹرول کی فی لیٹر قیمت ۴۵ روپیہ کی جائے۔ دونوں بھائی میٹرو اور موٹر ویز میں کمیشن کھا رہے ہیں۔ نواز شریف تمھارے پاس ۲۴ گھنٹے ہیں استعفیٰ دے دو ورنہ ایمپائر انگلی اٹھا دے گا۔ یہ ہیں عمران خان بنی گالوی کے چند اقوالِ زریں جو ۱۲۶ دن کے دھرنے کے دوران عوام کو سننے کو ملے، ورنہ ارشاداتِ عالیہ پر ایک ضخیم کتاب بھی مرتب کی جا سکتی ہے۔

اب آتے ہیں موصوف کے وزیر اعظم بنائے جانے کے بعد کے احوال کی جانب۔ اپنی شرائط پر آئی ایم ایف نے قرضہ منظور کیا تو موصوف نے اسے اپنی حکومت کی کامیاب پالیسی کی وجہ قرار دیا۔

آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت تمام سبسٹیڈیز ختم کرنا پڑیں اور مہنگائی کا جن بے قابو ہو گیا۔ بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں تو اشیا خوردنوش نوش کی قیمتوں کو پر لگ گئے۔ محکمہ اجناس کے منع کرنے کے باوجود آٹا برآمد کرنے کی اجازت دی گئی اور اس پر یار لوگوں نے خوب مال بنایا۔ جب آٹے کی قلت ہوئی تو اپنے مصاحبین کو نوازنے کیلئے آٹا درآمد کرنے کی اجازت دی اور یوں دنوں میں اربوں روپیہ کمایا گیا یعنی چپڑی اور وہ بھی دو دو۔

مرکزی حکومت نے چینی کی برآمد کی اجازت دی تو پنجاب حکومت نے سبسٹڈیز کا اعلان کر دیا پھر کیا تھا ساتھ بیٹھے سرمایہ کاروں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ پہلے برآمد کے نام پر ڈارامہ کر کے مال ذخیرہ کیا اور کمی ہونے پر درآمد کے نام پر مال دوبارہ مہنگے داموں مارکیٹ میں لایا گیا۔

شکر کے بحران پر کمیشن بنا تو اس نے ساتھ بیٹھے مصاحبین کی طرف اشارہ کر دیا تو رپورٹ کی 'فارنزک آڈٹ' کرائی گئی اور وہاں سے بھی یہی کہا گیا کہ چور آپ کی بکل میں ہی چھپے بیٹھے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جہانگیر خان ترین اور خسرو بختیار اس تمام واردات کے مرکزی کردار ٹھہرے۔ جہانگیر خان ترین اپنی بے عزتی پر برہم ہوئے اور فرمایا کہ مجھے ہاتھ لگایا تو حکومت نہیں رہے گی۔

حکومت نے ترین صاحب کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی جبکہ ان کا نام تو 'ای سی ایل' میں ڈالنا چاہیے تھا، رہے خسرو بختیار تو انہیں بہتر وزارت دے کر برقرار رکھا گیا ہے۔ پیٹرول کی قیمت کم کی تو اس کا کال پڑ گیا لیکن جیسے ہی قیمت فی لیٹر ۲۵ روپیہ بڑھائی پٹرول ہر اسٹیشن پر دستیاب ہو گیا۔ دوائیوں میں ۳۰۰ فیصد تک اضافہ ہوا تو کیانی صاحب کو ہٹا کر پارٹی کا سیکریٹری جنرل بنا دیا۔ اکبر ایس بابر پچھلے چھ سال سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چکر لگا رہے ہیں لیکن مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہونے دیا جا رہا جبکہ ان کا نواز شریف سے تقاضہ یہ تھا کہ چوری نہیں کی تو رسیداں کڈو۔

چوروں میں گھرے شخص کو اگر عدالت عظمیٰ صادق اور امین قرار دے تو ایسے منصفین کو سلام ہی کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ دوسرے سارے چور ہیں لیکن کپتان ایماندار ہے اس کے جواب میں میں یہ کہوں گا کہ اسمبلی میں واضح اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے منتخب نمائندوں کو کابینہ سے علیحدہ کرنا مشکل ہے لیکن غیر منتخب مشیران اور معاونینِ خصوصی کو برطرف نہ کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ اور اب اختتام پر عرض ہے کہ حزب اختلاف آج تک ایمپائر کی جس انگلی کو تلاش کر رہی ہے تو ان کے لئے مشورہ ہے کہ اگلی بار جب وزیر اعظم اسمبلی سے جانے لگیں تو غور سے دیکھیں شائد نظر آجائے۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔