کل کچن کی لمبی چوڑی ماہانہ صفائی ستھرائی کرنے کا موڈ ہوا، اور ساتھ فون پر میوزک لگا دیا۔ یونہی ایک کے بعد دوسرا گانا آتا رہا اور پھر ایک ایسا گانا بجنے لگا جو میں نے پہلے نہیں سنا تھا۔ گانے کے بول کچھ یوں تھے کہ:
تو شِو دی کتاب ورگی
میں پاش دیاں گلاں دا شیدائی
جانے کیا تھا اس گانے کے بولوں میں کہ پھر بہت بار سنا، اور جب میں نے میوزک بند کر دیا تو اس وقت بھی ذہن وہیں الجھا رہا۔ ہم میں سے بھی تو کوئی سر پر تاج لیکر اس دنیا میں آیا ہے تو کوئی کسی فقیر کی گڈری میں ہے، کوئی آزاد فضاؤں کا باسی ہے تو کوئی کسی ایسے خطے میں پیدا ہوا کہ پہلی سانس سے بھی پہلے غلامی کا طوق گلے میں ڈل چکا ہوتا ہے۔ ہمارا مذہب، ذات، قومیت، اور تو اور ہمارے گھر والوں کی معیشت جو ہمارے بننے سنورنے کے ابتدائی دنوں میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بس ایک ہماری پیدائش اسے طے کر دیتی ہے۔ اب ہم کس گھر، نسل، مذہب میں پیدا ہوں گے اس پر کوئی اختیار نہیں، میں مسلم گھر میں پیدا ہوئی اور گڑھتی میں یہ میرے اندر انڈیل دیا گیا کہ واحد درست اور سچا مذہب یہی ہے، اگر میں ہندو مت یا سکھ مت یا کسی بھی اور مذہب میں پیدا ہوتی، تو وہی میری زندگی کا سچ ٹھہرتا۔ میں جس ملک میں پیدا ہوئی وہ اچھا، میں جس قوم میں پیدا ہوئی وہی بہترین ہے، یہ وہ سب بڑے بڑے تعصب ہیں جو ہر معصوم اور چھوٹے سے ذہن میں بچپن سے ڈال دیے جاتے ہیں۔
اب کوئی کہاں پیدا ہوا، اسی نے بہت حد تک اس کا دنیا کو دیکھنے کا ڈھنگ بتا دیا۔ اگر کوئی مسلم ہے تو باقی سب مذاہب اس کے لیے جھوٹے، اگر ہندو تو اس کی یہی سوچ، بدھسٹ ہے تو بھی یہی، ایسے ہی نسل پرستی، ایسے ہی قوم پرستی، یہاں تک کے غریب کے لیے امیر ہمیشہ برا اور جھوٹ اور بےایمانی کے ذریعے ہی اس مقام تک پہنچا۔ معاشی طور پر مضبوط شخص کے لیے غریب کا ایک حد سے آگے آنا، ایک نیا حریف یا خطرے کی علامت ہی کیوں ہے، اسے اپنے گروہ میں خوش آمدید کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ کیا ہم سب پیدا ہی تعصب، حسد اور برائی کی طرف جھکاؤ کے ساتھ ہوتے ہیں یا اسطرح کہہ لیں کے پیدا ہوتے ہی جس ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اس قدر تنگ نظری کی طرف مائل ہے کہ سبھی منفی جذبے ہمارے اندر پنپنے لگتے ہیں۔ مگر ہم کس عمر تک، اور کس حد تک ان جذبوں کا بوجھ اٹھائیں۔ کب شعوری طور پر اس قابل ہو جائیں کہ غلط اور صیح میں فرق کو سمجھ سکیں، تعصب سے اٹھ کر درست کو درست کہہ سکیں اور اگر وہ شخص ہمارے قبیلے، گروہ سے تعلق نہ بھی رکھتا ہو تو بھی اس کےدرد کو درد سمجھ سکیں۔ کچھ لوگ ساری عمر اس قابل نہیں ہو پاتے، دوسروں کو ان کی سوچ کے مطابق فیصلہ کرنے کی آزادی نہیں دے پاتے، ان کے لیے صرف ان کا سچ ہی سچ ہوتا ہے اور یہی چیز شدت پسندی کو جنم دیتی ہے۔ فرق وہ جگہ ڈالتی ہے جہاں سے کھڑا ہو کر آپ ساری صورتحال کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور تعصب کی وہ عینک جس سے اپ اس صورتحال کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ورنہ بنیادی اچھائی اور برائی کے پیمانے تو ہر جگہ ایک سے ہی ہیں، غلطیاں اور غلط فہمیاں وہاں جنم لیتی ہیں جہاں ہم انسانوں کو انسان کے طور پر دیکھنے کی بجائے قوم اور قبیلے کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اکثریت کے گناہ کی سزا دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ اس اکثریت میں ان ہی سے تعلق رکھنے والی ایک اقلیت ہے جو ان سے الگ اور سچ کے ساتھ کھڑی تھی، اپنے غصے میں اپنی ہی حامی اس اقلیت کی دل آزاری کر جاتے ہیں۔
اگر سچ میں ہم دنیا کے اس نظام میں کوئی بہتری لانا چاہتے ہیں تو اپنی جگہ، اور تعصب سے اٹھ کر درست اور غلط کے فرق کو سمجھنا ہو گا۔ کسی کا معاشی طور پر بہتر جگہ پر پیدا ہونا اس کا جرم نہیں ہو سکتا، نہ ہی کسی کا ظالم کے گھر پیدا ہونا اس کا جرم ہے۔ جب تک کے وہ اس ظلم کی وراثت کو قبول کر کے اس میں ساتھ نہ دے بلکہ ایسی جگہ پر ہو کر بھی ٹھیک کو ٹھیک کہنے والا زیادہ قابل تحسین ہے کہ اس نے اپنے پیدائش کے ساتھ ملنے والے تعصب کو، انسانی نفسیات میں چھپی برائی کو شکست دے کر انسان ہونا سیکھا ہے۔ جس پر اس کی تعریف تو بنتی ہے، برے رویوں اور برے انسانوں کو غلط کہنا، ظلم کے خلاف کھڑے ہونا، جتنا ٹھیک اور ضروری ہے اتنا ہی غلط اور تعصب زدہ۔ کسی قوم یا گروہ کو برا کہنا ہے۔ خود سوچیں کوئی پوری قوم ظالم کیسے ہو سکتی ہے، کیسے ہو سکتا ہے کہ اس میں پیدا ہونا یہ طے کر دے کہ اب آپ غلط ہی کریں گے۔ اگر اپ ایسا سوچتے یا کہتے ہیں تو پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی آپ غلط ہی ہیں۔
انسانوں کو ایک انسان، ایک اکائی کے طور پر دیکھنا اور ان کے ذاتی افعال کی بنیاد پر ان کے بارے میں رائے قائم کرنا پہلا اور بنیادی قدم ہے، اس کے بعد صرف میں ٹھیک یا جس جگہ سے میں دیکھوں، دنیا کو دیکھنے کا وہی نظریہ ہو سکتا ہے۔ اس سے اوپر اٹھنا دوسرا بڑا قدم ہے، اور ایسے ہی چھوٹے چھوٹے قدم ہمیں شخصی آزادی کی بنیاد کو سمجھنے اور مختلف گروہوں سے تعلق ہونے کے باوجود پرامن طریقے سے رہنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، ہر پتھر کوہ نور نہیں ہوسکتا، سب کو تاج میں جگہ نہیں ملتی۔ تو نہ ہی کوہ نور کوئی پیمانہ ہے برتری جاننے کا، پتھر وہ بھی ہے اور میرے گھر کی بنیاد میں پڑا اینٹ کا ٹکرا بھی، دونوں کا اپنی جگہ پر ٹھیک سے ہونا ضروری ہے۔ ایک دوسرے کو اس کی جگہ پر قبول کرنا اور دونوں کی جگہ کو عزت دینا ضروری ہے، ورنہ جھگڑے تو تباہی ہی لاتے ہیں، اپنے مقام سے ہٹی چیز خیر کا باعث نہیں ہوتی۔