الیکشن 2018: کراچی دو بڑے اپ سیٹس کے لئے تیار

الیکشن 2018: کراچی دو بڑے اپ سیٹس کے لئے تیار
انتخابات 2018 جہاں دیگر کئی معاملات کی وجہ سے مختلف نوعیت اختیار کرتے جا رہے ہیں وہیں اب مبصرین ان انتخابات میں کراچی کی بڑی جماعتوں کو ڈگمگاتا ہوا بھی دیکھ رہے ہیں۔

لیاری میں پیپلز پارٹی کی لرزتی دیوار


ذوالفقارعلی بھٹو اور بینظیر بھٹو نے اپنے اقتدار کے ادوار میں ہمیشہ کراچی کے پرانے علاقوں میں شمار ہونے والے لیاری کو خاص اہمیت دی۔ ذولفقارعلی بھٹو کہتے تھے کہ جس دن لیاری پیپلزپارٹی کے ہاتھ سے نکل گیا، وہ پیپلز پارٹی کا آخری دن ہوگا۔ لیکن موجودہ الیکشن میں صورتحال کچھ ایسی ہی نظر آ رہی ہے۔

زرداری صاحب نے دیر کر دی

سابق صدر آصف علی زرداری نے الیکشن سے قبل آخری ٹرمپ کارڈ کھیلنے میں دیر کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ جب بلاول بھٹو خود اعتمادی کے ساتھ لیاری کے مختلف علاقوں کے دورے پر نکلے تو جونا مسجد اور ہنگورا آباد میں انہیں عوام کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ نہ صرف لیاری کی عوام پانی کی عدم فراہمی پرمٹکے اٹھا کر احتجاج پر نکلی بلکہ شاید لیاری کی تاریخ میں پہلی بار پیپلز پارٹی کا جھنڈا بھی جلایا گیا۔ عوام کی جانب سے اشتعال انگیزی بڑھی تو پولیس کوبیچ میں آنا پڑا اور آنسو گیس اورلاٹھی چارج سے مجمع کو منشتر کرنا پڑا۔



سب اچھا نہیں ہے

بلاول بھٹو کو ان کے درباریوں کی جانب سے سب اچھا ہے کی رپورٹ دینے والوں کے لئے بھی شاید یہ صورتحال ناقابل یقین تھی۔ آج لیاری جو پیپلزپارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، اس کے ہاتھوں سے نکلتا محسوس ہو رہا ہے۔ اس حلقے سے الیکشن 2018 میں پیپلزپارٹی سے بلاول بھٹو انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں تحریک لبیک پاکستان کے علامہ بلال سلیم، پاک سرزمین پارٹی کے محمد صادق رند اور ایم ایم اے کے نور الحق ہیں۔ سوال یہاں یہ ہے کہ اس حلقے سے بلاول بھٹو کو کون سی جماعت مشکل میں ڈال سکتی ہے۔



ایم ایم اے کے امیدوار سے بلاول کو خطرہ

لیاری کی عوام اس وقت ایم ایم اے کے امیدوار کو اپنا مسیحا سمجھ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ممکن ہے کہ اس سیٹ پر بڑا اپ سیٹ ہو۔ اس حلقے سے انتخابات 2013 میں پیپلز پارٹی کے امیدوار شاہجہان بلوچ کامیاب قرار پائے تھے۔ یہ این اے 246 جس میں لیاری، چاکی واڑہ، بہار کالونی، آگرہ تاج، بنگال آئل مل، بھیم پورہ، لی مارکیٹ کے علاقے شامل ہیں، آج پیپلز پارٹی کے لئے ایک بہت بڑا امتحان بن چکا ہے۔


شہباز شریف کراچی کا میدان مارتے دکھائی دیتے ہیں


دوسری جانب کراچی کا ایک اور بڑا حلقہ این اے 249 اب بڑی تبدیلی کا منتظر نظر آتا ہے۔ این اے 249 پورے بلدیہ ٹاون پر محیط ہے۔ یہ ایم کیوایم کا روایتی حلقہ مانا جاتا ہے۔ لیکن اب لگتا ہے یہ سیٹ مسلم لیگ نواز کے امیدوار شہباز شریف لے جانے والے ہیں۔ کیونکہ یہاں کے لوگوں کا نعرہ اس دفعہ بنیادی سہولیات نہیں بلکہ انصاف دو اور ووٹ لو ہے۔

بلدیہ ٹاؤن کا نعرہ: انصاف دو، ووٹ لو

سال 2012 میں اس علاقے میں سانحہ بلدیہ فیکٹری ہوا، جس میں 300 کے قریب مزدور جل کر جاں بحق ہوئے تھے۔ یہ سب مزدور اسی علاقے کے رہائشی تھے۔ الیکشن 2013 میں اس حلقے سے ایم کیوایم پاکستان کے امیدوار فاروق ستار 109952 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے، جن سے عوام کو انصاف کی امید تھی لیکن رینجرز کی جانب سے جاری کردہ جے آئی ٹی کے مطابق اس وقت ایم کیوایم کے اہم رہنما انیس قائم خانی اور ان کے دست راست حماد صدیقی کو بھتے کی عدم فراہمی پر اس سانحے کے پیچھے پایا گیا۔ جس کے بعد بلدیہ ٹآون کی عوام ایم کیوایم سے متنفر نظرآتی ہے۔



بلدیہ ٹاؤن کے دونوں مرکزی ملزمان پی ایس پی کا حصّہ

شاید اسی وجہ سے الیکشن 2018 میں ایم کیوایم کی جانب سے اس حلقے سے امیدوار ہی کھڑا نہیں کیا گیا۔ لیکن دوسری جانب پی ایس پی کی جانب سے اس حلقے سے ڈاکٹرفوزیہ امیدوارہیں۔ لیکن عوام تذبذب میں ہیں کیونکہ پی ایس پی کے اہم رہنما انیس قائمخانی سمیت دیگراہم رہنما اس سے قبل ایم کیوایم میں شامل تھے اور یہی سب لوگ اس سانحے کے ذمہ دار بھی قرار دیے گئے۔ تو پھران سے کوئی انصاف کی امید کیسے رکھی جا سکتی ہے۔



اس وقت اس حلقے میں سب سے اہم امیدوار پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف ہیں، جن کے مقابلے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار قادر خان مندوخیل، اور تحریک انصاف کے امیدوار فیصل واڈا ہیں۔ الیکشن 2018 میں نظر ایسا آتا ہے کہ یہاں سے مسلم ن سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوجائے گی۔

مصنفہ رپورٹنگ کے شعبے سے منسلک ہیں اور مختلف صحافتی اداروں میں خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔