پاکستان کی سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی سزا سے متعلق صدارتی ریفرنس پر 6 مارچ کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم کو عدالت میں فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا۔ سابق وزیر اعظم کو عدالت عظمیٰ سے انصاف ملنے میں تقریباً 45 سال لگ گئے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ اس لیے دیا ہے تا کہ آئندہ درست فیصلے کیے جا سکیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب اس کے بعد تمام سیاسی قیدیوں کو فیئر ٹرائل کا موقع مل سکے گا؟
ایک طرف ایک سابق وزیر اعظم کو چار دہائیوں بعد انصاف دیا جا ریا ہے جبکہ دوسری طرف ایک سابق وزیر اعظم کے اوپر کیسز بنا کر اس کو پابند سلاسل کیا ہوا ہے، یہ کیسا ظلم اور کھلا تضاد ہے؟ جیل میں قید سابق وزیر اعظم کی پارٹی سے انتخابی نشان چھیننے سے لے کران کے انتخابی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے تک ظلم اور زیادتی کی ایک طویل داستان ہے۔ یہ کیسا ملک ہے، یہ کیسی ریاست ہے جو ایک طرف چار عشروں کے بعد ایک سابق وزیر اعظم کو 'انصاف' دے کر اپنا قد بڑا کرنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف ایک اور سابق وزیر اعظم کو ریاستی اور عدالتی جبر کا نشانہ بنا رہی ہے؟ کیا اس سابق وزیر اعظم کو بھی مرنا پڑے گا اور پھر اس کی قبر کو کئی عشروں تک انصاف کے لیے انتظار کرنا پڑے گا؟ فیض صاحب نے کہا تھا؛
؎ کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
یہاں اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ راقم کو دور حاضر کے قید شدہ سابق وزیر اعظم کے نظریات اور ان کے طرز سیاست سے شدید نظریاتی اختلاف ہے اور راقم نے ان کی پالیسیوں اور نظریات پر بے شمار تنقیدی کالم لکھے ہیں جو اسی پلیٹ فارم پر موجود ہیں۔ منٹو صاحب نے کہا تھا کہ ایک لکھاری اس وقت قلم اٹھاتا ہے جب اس کی کامن سینس کو ٹھیس پہنچتی ہے، لہٰذا راقم بھی اسی ضرورت کے پیش نظر قلم اٹھانے پر مجبور ہوا ہے۔
یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کی شخصیت کا کبھی بھی موازنہ نہیں کیا جا سکتا، یہاں پر صرف زمینی حقائق اور اسباب کی بات ہو رہی ہے۔ بھٹو صاحب کی سزا اور ان کے ٹرائل پر فیصلے پر جہاں ایک طرف کچھ سکون محسوس ہوا ہے وہیں ایک شدید دکھ اور رنج کی کیفیت بھی طاری ہے کہ ہماری ریاست کیا کرتی ہے، ایک طرف ایک خاص صدارتی ریفرنس پر 45 سال بعد انصاف دیتی ہے تو دوسری طرف بے انصافی کی ایک اور مثال قائم کر رہی ہے۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے ریاست پاکستان ایک طرف طالبان کے خلاف دہشت گردی کی جنگ لڑ رہی تھی جس میں بے پناہ مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا اور اب بھی اٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ دوسری طرف افغانستان میں پھر سے طالبان کی حکومت لانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ اب پھر طالبان کی پراکسی تحریک طالبان پاکستان کے سکیورٹی اداروں کا جینا حرام کر رہی ہے اور اس کے حملوں میں سکیورٹی اہلکاروں اور عام افراد کی جان بھی جا رہی ہے۔ اگر ریاست پاکستان کی پالیسیوں اور فیصلوں کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات پتہ چلتی ہے کہ یہ ایک تسلسل ہے، شاید اسی لیے یہ ملک آگے جانے کے بجائے پھر اسی جگہ پر آ کھڑا ہوتا ہے جہاں سے سفر شروع کیا ہوتا ہے۔ منیر نیازی نے کہا تھا؛
؎ منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
مسئلہ سابق وزیر اعظموں کو انصاف دینے کا نہیں، مسئلہ صرف یہ ہے کہ جب مقبول لیڈروں اور سابق وزیر اعظموں کو بھی انصاف کے لیے کئی عشروں کا انتظار کرنا پڑے گا تو عام آدمی کا کیا ہو گا؟
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
مسئلہ بھی پرانا ہے اور انداز بھی وہی پرانے ہیں۔ وہی قلیل المدت پالیسی اور وہی پروجیکٹ نما فیصلے اور پالیسیاں جنہوں نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ انہی فیصلوں کی وجہ سے ملک آگے کے بجائے پیچھے کو جا رہا ہے۔ مگر ہزار بار زخم کھانے اور ذلت اٹھانے کے باوجود پاکستان کی اشرافیہ اور اس کے مقتدر حلقے ابھی تک اسی پرانی روش پر گامزن ہیں۔ مرزا غالب نے کیا خوب کہا تھا؛
؎ وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سُبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو؟
پاکستان کے ریاستی اداروں کی حماقتوں کی طویل داستان اپنی جگہ مگر سیاست دانوں اور عوام کی بے حسی اور خود غرضی بھی اوج کمال کو چھو رہی ہے۔ اپنے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر کسی اور کے ساتھ ہوئے ظلم کو نا صرف برداشت کرتے ہیں بلکہ اس پر لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔ ان نادانوں کو یہ خبر نہیں رہتی کہ عنقریب وہ بھی اسی لاٹھی سے ہانکے جائیں گے۔ قیدی نمبر 804 کے لیے انصاف انصاف کی رٹ لگانے والے اس دور کو بھی یاد رکھیں جب حزب اختلاف اور ان کے خاندان والوں کو اٹھایا جا رہا تھا اور سر بازار ان کی عزت اور آبرو کا مذاق اڑایا جا رہا تھا۔ اب کہتے ہیں کہ وہ ہم نہیں تھے، کوئی اور کر رہا تھا۔ جناب عالی! جو اس وقت کر رہا تھا اب بھی وہی کر رہا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ تب آپ استعمال ہو رہے تھے اور آج آپ کے خلاف کوئی اور استعمال ہو رہا ہے۔ امریکہ کے انسانی حقوق کے علمبردار مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا کہ ظلم کہیں بھی ہو اور کسی کے ساتھ بھی ہو، وہ ہر جگہ اور ہر کسی کے انصاف کے لیے خطرہ ہوتا ہے۔
اگر پاکستان کی عدالت عظمیٰ واقعی بھٹو شہید کے کیس سے سبق سیکھ کر تاریخ کا قبلہ درست کرنا چاہتی ہے تو اس کو ایک اعلیٰ سطحی لارجر بینچ تشکیل دینا چاہیے جو 2014 سے لے کر 2024 کے الیکشن تک سیاسی و غیر سیاسی کرداروں نے جو جو کرتب بازیاں کی ہیں ان سب کو بے نقاب کرے کیونکہ جو ریاست اپنے حال کو درست کر لیتی ہے اس کو ماضی پر پشیمانی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پاکستان کی ریاست اور اس کے اداروں کی روش کو دیکھتے ہوئے یہ مشکل نہیں بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے کیونکہ ملک بدنصیب میں صرف کردار بدلتے ہیں، طریقہ واردات وہی پرانا چلتا رہتا ہے۔