ایف آئی اے کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے آفیشل سیکرٹس ایکٹ میں نئی ترمیم کے ذریعے تفویض کیے گئے اختیار کے تحت تحقیقات مکمل کر لی ہیں اور اس کا فیصلہ ہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور دونوں کے خلاف مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
دونوں کے خلاف متعدد الزامات ہیں۔ مگر بنیادی الزام یہ ہے کہ عمران خان نے بیرون ملک تعینات پاکستان کے سفیر کی جانب سے بھیجے گئے خفیہ سائفر کے حساس نوعیت کے مندرجات کو منظر عام پر لانے کا جرم کیا۔
بنیادی الزام یہ نہیں ہے کہ سائفر کی گمشدگی سے سفارتی پیغامات کے منظر عام پر آنے سے ان کی خفیہ زبان عام ہونے کا امکان پیدا ہوا۔ اگر یہ الزام مرکزی ہوتا تو کم از کم اس پر سزا ہونا چاہیے تھی کیونکہ یہی نکتہ اس قانون کی تخلیق کا بنیادی سبب تھا۔ مگر عمران خان پر یہ الزام ہے کہ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ ریاست کو اس سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے، عمران خان نے سائفر کے مندرجات کو بدنیتی کے ساتھ افشا کر دیا۔
آفیشل سیکرٹس ایکٹ پہلی مرتبہ 1925 میں بنایا گیا تھا اور یہ تاج برطانیہ کے ایسے ملازمین کو سزائیں دینے کے لئے تخلیق ہوا تھا جن پر الزام ہو کہ انہوں نے وفاداری کو بھول کر یا غفلت میں حساس معلومات کو لیک کیا یا ان کا غلط استعمال کیا۔ سو باتوں کی ایک بات، یہ قانون برطانوی سامراج کے حاضر سروس افسران اور خاص طور پر وردی میں ملبوس ہندوستانی شہریوں کو اس سیاسی نفسا نفسی کے دور میں نوآبادیاتی اقتدار کے ساتھ غداری کرنے سے روکنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ قانون کا مقصد ان سرکاری افسران کو سلطنت برطانیہ کی خفیہ معلومات کو برصغیر کے محکوم باشندوں تک پہنچانے سے روکنا تھا۔
اس قانون کی اصل زبان تاج برطانیہ کے لئے ڈیوٹی سرانجام دینے اور اس فرض کو تاج برطانیہ کے ماتحت رہ کر یعنی سلطنت کے ایما پر ادا کرنے کی بات کرتی ہے۔ قانون میں موجود اصطلاح 'ہز میجسٹی' کو پاکستان بننے کے بعد لفظ 'حکومت' سے بدل دیا گیا مگر اب بھی اس جملے میں 'حکومت' کے بعد 'کے ایما پر' کے الفاظ بدستور برقرار ہیں۔ یہاں اس بات کا واضح اشارہ ملتا ہے کہ یہ قانون کن لوگوں سے معاملہ کرنے کے لئے بنایا گیا تھا؛ ریاست کے ایسے ملازمین جو ریاست کے سربراہ کے ایما پر ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
وردی اور دستاویزات کے غیر مجاز استعمال سے متعلق سیکشن میں مذکورہ ایکٹ اور بھی واضح انداز میں بتاتا ہے کہ اس کا اطلاق کن کن لوگوں پر ہوتا ہے؛ اصل زبان میں لکھا تھا 'ہز میجسٹی کے ماتحت عہدہ رکھنے والا شخص'۔ 1956 میں اسے تبدیل کر کے 'حکومت کے ماتحت عہدہ رکھنے والا شخص' کر دیا گیا۔
ایکٹ ایسے تمام لوگوں پر لاگو ہوتا ہے جو حکومت کے ماتحت یا اس کے ایما پر کام کرتے ہیں۔ پورا ایکٹ واضح طور پر اس انداز میں تیار کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے حکومت میں موجود حساس مقامات سے متعلق جاسوسی کو روکنے اور اس پر سزا دینے کو یقینی بنایا جائے۔ اس کا زیادہ تر حصہ اس انداز میں تحریر کیا گیا ہے کہ مجرمانہ ذہنیت جہاں بھی پائی جائے اسے سزا دی جائے۔ جان بوجھ کر معلومات افشا کرنا اس ایکٹ کے تحت مرکزی جرم قرار دیا گیا ہے اور سیکشن 3 میں اسی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
اس سے نسبتاً چھوٹے جرائم وہ ہیں جن میں معلومات غفلت کے نتیجے میں لیک ہوئیں، سیکشن 5 میں یہ درج ہے۔ یہی وہ خلاف ورزی ہے جس کے بارے میں ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے کی ہے۔ ڈی کوڈ کیے جا چکے سائفر کو گم کر کے عمران خان اس کی حفاظت میں ناکام ہو گئے یا انہوں نے اس طرح عمل کیا جس سے سائفر کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی۔ مگر سائفر میں 'سیکرٹ آفیشل کوڈ' یا 'پاس ورڈ' یا 'ایسی معلومات ہونی چاہئیں جو حساس معاملے سے متعلق ہوں یا کسی حساس معاملے میں استعمال کی جا سکتی ہوں'۔ عمران خان کے پاس جو سائفر تھا اس کے مندرجات پہلے ہی ڈی کوڈ ہو چکے تھے۔ ایکٹ کا اس سیکشن کا باقی حصہ اس چین آف کمانڈ کو واضح کرتا ہے جس کے تحت فرائض انجام پائیں گے۔
عمران خان کی صورت حال سے متعلق 2023 کی ایک اور مخصوص ترمیم یہاں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ترمیم آگے دی جانے والی عبارت میں خط کشید کی گئی ہے؛ 'ایکٹ ایسے ڈاکیومنٹ پر لاگو ہوتا ہے جو حکومت کے ماتحت کام کرنے والے اہلکار نے انہیں اعتماد کی بنیاد پر دیا ہو یا جو اس نے حاصل کیا ہو یا اپنے پاس رکھ لیا ہو جس تک انہیں حکومت کے ماتحت عہدہ رکھنے کی حیثیت سے دسترس حاصل تھی'۔
عمران خان نے ڈی کوڈ شدہ سائفر کو اپنے پاس رکھ لیا۔ اگست 2023 میں پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے ہونے والی دھڑا دھڑ قانون سازی کے دوران اس ایکٹ میں ہونے والی ترمیم اسی معاملے سے متعلق ہے۔ مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس سائفر میں 'کوئی آفیشل سیکرٹ کوڈ' بھی موجود تھا جس کے باعث عمران خان پر اس سیکشن کا اطلاق ہوتا ہے؟
کیا اس میں 'ایسے حساس مقام کے بارے میں معلومات شامل تھیں جو عام طور پر خفیہ رکھا جاتا ہے'؟ تنقیدی لحاظ سے عمران خان 'حکومت کے ماتحت عہدے' پر براجمان تھے؛ اسی بنیاد پر ان پر ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟
ایکٹ کے سیکشن 8 کے تحت خلاف ورزی سے متعلق معلومات دینے کی ذمہ داری ادا کرنے کے ضمن میں پاکستان کی منظم قوتوں جیسا کہ پولیس اور فوج کا واضح طور پر تذکرہ کیا گیا ہے اور اس سیکشن میں تفتیش میں معاونت نہ کرنے پر سزائیں بھی مقرر کی گئی ہیں۔
نیٹ فلکس پر مقبول ٹیلی وژن سیریز The Crown میں ایک منظر ہے جہاں نوجوان ملکہ الزبتھ دوم ایک تقریب سے پہلے ہاؤس آف ونڈسر کی ملکیت میں رکھے زیورات سے جڑے متعدد تاج دیکھ رہی ہوتی ہیں جن میں سے ایک انہوں نے پہننا ہوتا ہے۔ نوجوان ملکہ کو اپنے سامنے رکھے تمام تر میں سے کسی ایک تاج کو منتخب کرنا ہے مگر انہیں انتخاب کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہوتی ہے۔ وہ تقریب میں پہننے سے پہلے ایک بار انہیں آزمائشی طور پر پہن کے دیکھنا چاہ رہی ہوتی ہیں اور ایک درباری سے کہتی ہیں کہ کیا وہ تھوڑی دیر کے لئے تاج کو مستعار لے سکتی ہیں۔ درباری اس سوال پر گڑبڑا جاتا ہے۔ 'مستعار؟'، اسی پریشانی میں وہ سوال کرتا ہے اور مزید کہتا ہے؛ 'ملکہ معظمہ، یہ سارے تاج اگر آپ کی ملکیت نہیں ہیں تو پھر اور کس کی ہیں؟'
کیا خفیہ ہے اور کیا حساس ہے، اس بات کا فیصلہ کرنے کا اختیار کس کو حاصل ہے؟ کیا منتخب وزیر اعظم سے زیادہ اچھی پوزیشن میں کوئی ہو سکتا ہے کہ جب اس کے سامنے کوئی اہم اور خفیہ چیز آتی ہے تو وہ فیصلہ کرے کہ یہ عوام کے علم میں لائی جانی چاہیے یا نہیں؟
ایک وزیر اعظم کو ایسی پابندیوں میں کیسے جکڑا جا سکتا ہے جو یقینی بناتی ہیں کہ وزیر اعظم کے ماتحت افسران پہلے وزیر اعظم کے ساتھ اور پھر ریاست کے ساتھ غداری نہ کریں؟
اگر اصل الزام یہ ہے کہ عمران خان نے حساس معلومات کو سیاسی فائدے کے لئے استعمال کیا، تو اس کا فیصلہ عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے سے کر لیں گے۔ اگر وزیر اعظم نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے تو یہ بھی ایسا معاملہ ہے جس پر عوام اپنے وزیر اعظم کو جواب دہ ٹھہرائیں گے، نا کہ وزیر اعظم کے خلاف آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے۔
لیکن کیا یہ سائفر حساس معلومات پر مبنی تھا یا کیا اسے عوام کے سامنے اس طرح سے پیش کیا جانا چاہیے تھا جیسے کیا گیا، تو یقیناً یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو صرف اور صرف وزیر اعظم نے کرنا ہوتا ہے۔
اگر یہ فیصلہ وزیر اعظم نہیں کر سکتے تو پھر اور کون کرے گا؟
**
قانون دان عبدالمعز جعفری کا یہ تجزیہ انگریزی روزنامے Dawn میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے اردو ترجمہ کیا گیا ہے۔