Get Alerts

سنی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما کا تحفظ بنیاد اسلام بل کو قانون کی شکل میں نافذ کرنے کا مطالبہ

سنی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما کا تحفظ بنیاد اسلام بل کو قانون کی شکل میں نافذ کرنے کا مطالبہ
پنجاب اسمبلی سے پندرہ روز قبل منظور کیے گئے تحفظ بنیاد اسلام بل پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے سلسلے میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے متعدد سنی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما نے ملاقات کی۔

شرکا میں مولانا زاہدور راشدی، لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید پراچہ، مولانا محمد احمد لدھیانوی، سید کفیل بخاری، حافظ عبد الغفار روپری، مولانا الیاس چنیوٹی، قاری زوار بہادر، حافظ ابتسام الہی ظہیر، حافظ اسد عبید اور دیگر شامل تھے۔ میزبانی جمعیت علما اسلام (سمیع الحق) کے جنرل سکریٹری مولانا عبد الرؤف فاروقی نے کی۔

اجتماع کی صورت میں کی جانے والی پریس کانفرنس میں فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے مولانا عبدالرؤف فاروقی نے کہا کہ شرکا نے بل کی منظوری کے لیے علما کے اصرار کا خیر مقدم کیا اور اسے اسلام کی مقدس شخصیات سے پنجاب اسمبلی کے اراکین کی محبت اور عقیدت کا مظہر قرار دیا۔

پریس کانفرنس میں صوبائی حکومت، سپیکر پنجاب اسمبلی، قرارداد تحریک پیش کرنے اور اس کے حق میں ووٹ دینے والے اراکین کو مبارکباد دیتے ہوئے امید ظاہر کی گئی کہ جلد از جلد اس قانون کو بھی نافذ کیا جائے گا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ مقدس شخصیات کے تقدس کو متنازع بنانے کے لیے اس بل پر تحفظات کے نام پر کچھ حلقوں کی طرف سے شیطانی کوششیں کی گئیں اور اسے ناقابل برداشت حرکت قرار دیا۔

اجلاس میں کہا گیا کہ تمام مکاتب فکر کے سنجیدہ علما نے ہمیشہ آنحضرتﷺ اور ان کے صحابہ کرام کی حرمت پر مثبت خیالات اور جذبات کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی منفی تاثر کا اظہار نہ صرف مقدس افراد کے تقدس کے متفقہ موقف کے خلاف ہے بلکہ فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے کی کوشش ہے۔ لہٰذا اس اجلاس میں ایسے عناصر کو متنبہ کرنا ضروری سمجھا گیا ہے کہ ان کی سرگرمیوں کو کسی بھی سطح پر برداشت نہیں کیا جائے گا، مقدس شخصیات کے تقدس کا ہر قیمت پر تحفظ اور دفاع کیا جائے گا۔

اجلاس میں بل کے دفاع کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا اور اس مقصد کے حصول کے لیے مذہبی جماعتوں کے سربراہان کا اجلاس بلانے کی ذمے داری مولانا عبدالرؤف فاروقی کو سونپی گئی۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس بل سے متعلق اسکالرز، محققین اور اشاعت خانوں کے خدشات کو دور کیا جائے اور حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ اس قانون سازی پر اعتماد میں لینے کے لیے تمام مکاتب فکر کے علما کے ساتھ بیٹھیں۔ اس سلسلے میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ بیوروکریٹس کے بجائے متحدہ علما بورڈ کے ذریعے متنازع مواد کی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے۔