استاد، اور اس کے ’چھوٹے‘

استاد، اور اس کے ’چھوٹے‘
بھلے وقتوں کی بات ہے ایک مکینک کی دکان تھی۔ اس دکان کے مالک کو سب استاد کہتے تھے۔ استاد نے بڑھتے کام کو دیکھتے ہوئے تین لڑکے اپنی دکان پر رکھے ہوئے تھے جو گزرتے وقت کے ساتھ کام بھی سیکھ رہے تھے اور استاد کا ہاتھ بھی بٹا رہے تھے۔ ان تینوں شاگردوں میں جو سب سے کم عمر تھا اسے سب ’چھوٹا‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ ’چھوٹے یہ کر دو، چھوٹے وہ کر دو‘۔ یوں اس کا نام چھوٹا ہی پڑ گیا اور نام کی نسبت سے شاید دماغ بھی چھوٹا رہ گیا۔

چھوٹا بچپن سے ہی بہت شرارتی تھا۔ تب ہی اس کے والدین نے سکول چھڑوا کر مکینک کی دکان پر بٹھا دیا۔ چھوٹا بلا کا اتنہا پسند تھا۔ بیچ کی راہ کبھی اس کو سوجھتی نہ تھی۔ معتدل مزاجی اور ڈپلومیسی بھی کوٸی شے ہوتی ہے یہ اس نے کبھی سیکھا نہ تھا۔ بچپن میں جب صبح سکول جاتا تھا تو رات کو گھر لوٹتا تھا۔ جب گھر والے اسے مارتے اور جلدی آنے کا کہتے تو پھر وہ ہاف ٹاٸم بریک میں کلاس روم کی کھڑکی سے بیگ باہر پھینک کر سکول سے فرار ہو جاتا اور چھٹی سے پہلے ہی گھر آ جاتا تھا۔

ایک دن ماں نے کہا بیٹا جاؤ دکان سے چنے کی دال لے آؤ۔ اب چونکہ کام کرنا اسے سخت ناگوار گزرتا تھا اور وہ بھی کسی کے کہنے پر، چھوٹا اپنی حرکتوں کی وجہ سے ہی آج مکینک کی دکان پر کام کرنے پر مجبور ہے لیکن انسان کی خصلت کب بدلتی ہے؟ حرکتیں آج بھی وہی ہیں۔ خیر، جب دکان پر پہچا تو چنے کے بجائے ماش کی دال لے کر لوٹا۔ ماں نے خوب سناٸی۔ باپ تیرا نہیں کھاتا ماش کی دال بھلکڑ کہیں کا، تجھے بھیجنے سے اچھا میں خود چلی جاتی۔ ماں نے اسے ڈانٹتے ہوئے بولا جسے سن کر چھوٹا دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ کاش ایسا ہی ہو، اگلی بار مجھے بھیجنے کے بجائے سودا ماں خود ہی لایا کرے۔

اسی طرح استاد بھی جب اسے کوٸی کام کہتا تو وہ اس کام کو اس طرح انجام دیتا کہ استاد بھی سر پکڑ کر رہ جاتا۔ ایک دن دکان پر ایک گاڑی آٸی جس کی ہیڈ لاٸیٹس آن نہیں ہو رہی تھیں اور استاد پہلے ہی دوسری گاڑی کے کام میں مصروف تھا تو اسے نے چھوٹے سے کہا کہ ذرا تم اس کی ہیڈ لاٸیٹ چیک کر لو۔ چھوٹے کو کام کرنے سے سخت نفرت تھی۔ لہٰذا حسب معمول اس نے استاد کا کام اور بڑھا دیا۔ مسٸلہ صرف بلب کو تبدیل کرنے کا تھا، چھوٹے نے پوری گاڑی کی واٸرنگ ہی باہر نکال کر رکھ دی۔

خیر آپ بھی سوچتے ہوں گے میں یہ کیا کہانیاں لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس وقت ملک کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اس وقت وزیراعظم اور چیف جسٹس استاد ہیں اور تمام ادارے اور وزرا چھوٹے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جس بھی ادارے یا وزیر کو کو کوٸی کام سونپا جا رہا ہے وہ اس کام کو اس بھونڈے انداز میں کر رہا ہے کہ استاد بھی سر پکڑے بیٹھے ہیں اور پاکستان کے عوام بھی۔

مثلاً اب تجاوزات کے خلاف مہم کو ہی دیکھ لیں۔ مجھے زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ کہنے کو قبضہ واگزار کروایا جارہا ہے لیکن جو لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں اس بارے میں کوٸی نہیں سوچ رہا اور نہ کوٸی پلان نظر آتا ہے اور نہ ہی ان لوگوں سزا دی جا رہٕی ہے جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ قبضہ ہونے سے روکتے۔ اور نہ ہی یہ بات سمجھ آ رہی ہے کہ زمینیں خالی کروا کر حکومت اور ملک کو براہ راست کیا فاٸدہ ہوگا؟

چلیں وہ قبضے جو سڑک کو تنگ کرتے ہیں وہ تو آپ گرا رہے ہیں لیکن بہت سی جگہیں ایسی بھی خالی کرواٸی جا رہی ہیں جن کے خالی ہونے کے بعد کوٸی متبادل استعمال بھی نہیں ہوگا۔ بہتر یہ ہوتا کہ حکومت ایسی جگہوں سے جن کے خالی ہونٕے سے براہ راست کوٸی فاٸدہ نہیں ان کو رجسٹرڈ کر کے ٹیکس عاٸد کر کے کرایہ وصول کرتی، جس سے ریوینیو بھی جنریٹ ہوتا اور جگہ بھی حکومت کی ملکیت رہتی اور لوگ بھی بے روزگار نہیں ہوتے۔

اسی طرح آپ نیب کو دیکھ لیں۔ نیب بھی کسی چھوٹے سے کم نہیں ہے۔ احتساب کرنے میں لگے ہیں لیکن کہیں بھی کچھ ثابت نہیں ہو پا رہا اور نہ ہی نیب کے اقدامات کی ٹاٸمنگ کسی کی سمجھ میں آرہٕی ہے۔ نہ دوست مطمٸن ہیں نہ دشمن۔

وزارت خزانہ کا بھی یہی حال ہے اور وزارت اطلاعات سے بھی نہ اپنے خوش ہیں نہ پرائے۔ داخلہ کی وزارت وزیراعظم کے پاس ہے جس کی وجہ سے اقدام قتل کے الزامات بھی وزیراعظم پر لگائے جا رہے ہیں۔ دعوے بہت ہیں لیکن کام عوامی توقعات کے مطابق نہیں ہو رہا۔ یہ گومگو کی کیفیت ملک کے لئے خطرناک ہے۔ عمران خان اور چیف جسٹس کے لئے مشکل یہ ہے کہ کھلاڑی آؤٹ ہو رہے ہیں اور عمران خان چھوٹے کے استاد اور ماں کی طرح ہر کام خود نہیں کر سکتے اور نہ سیاست کی وکٹ پر ون ڈاؤن آ کر چاروں طرف چوکے چھکے لگا سکتے ہیں کیونکہ بارش بھی ہوٸی ہے اور وکٹ پر گھاس بھی بہت ہے۔ کام انہیں چھوٹوں سے ہی لینا ہے اور چھوٹوں کو کام کرنا پسند نہیں۔ آگے کیا ہوگا؟ اللہ بہتر کرے، یہی دعا کرسکتے ہیں۔

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔